قدوۃ السالکین حضرت خواجہ معظم دین مر لوی قدس سرہ العزیز
قدوۃ السالکین حضرت خواجہ معظم دین مر لوی قدس سرہ العزیز (تذکرہ / سوانح)
شیخ المشائخ حضرت کواجہ معظم دین مرولوی قدس سرہ العزیز ۱۲۴۷ھ؍ ۱۸۳۲ء میں تحصیل بھلوال کے ایک گائوں مرولہ میں پیدا ہوئے جسے بعد میں آپ کی فضیلت و شرافت کی نست سے مرولہ شریف کہا جانے لگا۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، قرآن کریم تجوید احفظ کیا،تیرہ سال کی عمر میں حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رضی اللہ عنہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے پھر تحصیل علم کے بعد کچھ عرصہ لاہور اور زیادہ عرصہ بمبئی میں قیام کیا،وہاں سے علوم متداولہ کی تحصیل و تکمیل کی اعلیٰ سندلے کر زیارت مقدسہاور سیاحت عالم کے لئے روانہ ہوئے ترکی میں علماء سے ماحث میں شریک ہوئے ترکی کے علماء آپ کی جلالت علمی سے بیجد متاثر ہوئے اور حکومت وقت کو آپ کی طرف متوجہ کرایا چنانچہ سرکاری طورپر ایک با وقار تقریب میں آپ کو حکومت کی طرف سے شمس العلماء کا خطاب اور اعزازی ڈگری پیش کی گئی۔
دور طالب علمی میں آپ سخت ریاضت مجاہدہ میں مصروف رہے،دن کو تحصیل علم میں اور رات کو یاد خدا وندی میں اس طرح مصروف رہتے کہ کئی کئی دن سوئے بغیر گزاردیتے بر صغیر کی نامور اہل علم و عرفان ہستیوں سے ظاہری و باطنی برکات کا استفادہ کرتے رہے،تکمیل علوم کے بعد سالہا سال تک سیرو سیاحت میں مظاہرہ قدرت کا نظارہ کرتے رہے اور علم و معرفت کے اسرار وموز سے بہرہ ہوتے رہے۔ایک عرصہ بعد پھر اپنے شیخ و مرشد کی بارگاہ اقدس میں سیال شریف حاضر ہوئے،چودہ سال اور چار ماہ کے طویل عرصہ تک اس جا نفشانی سے خدم بجا لاتے رہے کہ قابل تقلید مثال بن گئی۔
جب آپ کا ظاہر و باطن انوار الٰہی سے معمور ہوگیا تو حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ العزیز نے آپ کو خلافت و اجازت سے سر فراز فرمایا، رفتہ آپ کے گرد خلق خد کا ہجوم ہونے لگا،صوبۂ پنجاب اور سرحد کے تقریباً تین ہزار افراد آپ کے حلقۂ ارادت میںداخل ہو کر محبت الٰہی کی لا زوال نعمت سے شر شا ہوئے۔ حضرت خواجہ صاحب نے حکومت انگریز کے ظل و ستم اور بڑھتے ہوئے استعمار کے خلاف مسلمانوں کے دینی،سیاسی،ثقافتی اور ذہنی انحطاط کو دور کرنے کی خاطر اپنی تمام تو جہات وقف کردیں اورا پنے تمام امکانی و سائل صرف کرکے مسلمانوں میں حیات نو کا جذبہ بیدار کیا۔
حضرت خواجہ صاحب روح فقر سے پوری طرح آشنا تھے۔آپ کے نزدیک قالب کی بجائے قلب کی اصلاح و تربیت اولین حیثیت رکھتی تھی کیونکہ دل پورے جسم پر حکمرانی کرتا ہے جب دل کی صحیح طور پر اصلاح ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ظاہر اسلامی ساچنے میں نہ ڈھل جائے آپ کی رائے یہ تھی کہ ہوا میں اڑنا یا پانی پر چلنا فقر نہیں ہے۔فقریہ ہے کہ ظاہر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت سے آراستہ ہو اور باطن علم،عقل اور عشق سے منور ہو اور دل کسی بھی یاد الٰہی سے غافل نہ ہو یہی وجہ تھی کہ آپ کامت نمائی کو پسندیدہ نظر سے نہ دیکھتے تھے۔آپ اس بات کے قائل تھے کہ فقر اس وقت تک درجۂ کمال کو نہیں پہنچتا جب تک سالک علم شریعت میں پوری دستگاہ نہ رکھتا ہو،شریعت مطہرہ کی انتہائی پابندی ہی فقر کی بنیاد ہے اس معیار پر اگرآپ کو دیکھا جائے تو آپ کے درجۂ ولایت پر فائز ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔
حضرت خواجہ صاحب کی قائم کردہ خانقاہ ایک صدی سے رشد و ہدایت کا مرکز ہے آپ کے پوتے موجودہ سجادہ نشین حضرت خواجہ غلام سدید الدین مدظلہ العالی صاحب علم و فضل بزرگ ہیں،انہوں نے خیرو برکت کی منظم اشاعت کے ساتھ ساتھ دور حاضر کے ذہنی تشکک اورسماجی مسائل کو حل کرنے کے لئے متوسلین خانقاہ پر مشتمل ایک فلاحی و رفاہی انجمن معظمی جماعت کے نام سے قائم کردی ہے جو حضرت خواجہ معظم دین کی علمی و روحانی میراث اور خدمت خلق کے سماجی مشن کو پبلک میں عام کرنے کے لئے مؤثر خدمات انجام دے رہی ہے۔
حضرت خواجہ معظم دین مرولوی قدس سرہ کے علو مقام کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں،آپ کے شیخ و مرشد حضرت خواجہ شمس العارفین قدس سرہ کا ارشاد پیش کردینا ہی کافی ہے،فرماتے ہیں:
’’مولوی معظم دین مرولوی مردے عالی ہمت است کہ حافظ قرآن و تحصیل علوم تمام نمودہ،حج حرمین شریفین بجا آوردہ بیاد الٰہی مشغول است وہم حب زناں تاہنوز در دل و نیا مدہ[1]۔‘‘
حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال ۱۰ جمادی الاولی (۱۳۲۵ھ؍ ۱۹۰۷ئ) کو ہوا آپ کا مرقد انور مرولہ شریف (تحصیل بھلوال) میں مرجع خلائق ہے[2]
[1] مرأۃ العاشقین: ص۱۲۹
[2] مکتوب گرامی مکرمی پروفیسر نظام الدین،زید مجدہ گورنمنٹ کالج بھلوال،ضلع سرگودھا،بنام راقم الحروف
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)