عارف کامل حضرت خواجہ محمد عبد الکریم نقشبندی قدس سرہ (راولپنڈی)
عارف کامل حضرت خواجہ محمد عبد الکریم نقشبندی قدس سرہ (راولپنڈی) (تذکرہ / سوانح)
زبدۃ العافین، قدوۃ السالکین حضرت خواجہ محمد عبد الکریم ابن نذر محد قدس سرہما ۱۱ ،اپریل ، رجب المرجب (۱۳۶۴ھ/۱۸۴۸ئ) بروز شنبہ بوقت صبح پیدا ہوئے تین ماہ کی عمر میں عالدہ مجا دہ کا انتقال ہو گیا اور ابھی آپ کی عمر دو برس بھی نہیں ہوئی تھی کہ والد ماجد کا سایۂ شفقت بھی سر سے اٹھ گیا لہٰذا آپ کی پرورش آپ کے چچا میاں پیر بخش اور عادہ و زاہد ہ پھوپھی نے بحسن وخوبی انجام دی۔آپ جب پھوپھی صاحبہ تہجد کے بعد دعا کیا کرتی تھیں کہ اے اللہ اس بچے کو اپنا بندہ بنا اور دین و دنیا میں اس پر برکت نازل فرما! حافظ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اس دعا کی ٹھنڈک اب بھی اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں اور یہ سب اسی دعا کا نتیجہ ہے ۔
جب آپ کی عمر ۸ برس ہوئی تو آپ کو محلہ کی مسجد کے امام قاضی محمد زمان رحمہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا گیا چناچنہ مختصر عرصہ میں آپ نے قرآن مجید پڑھ لیا، بعد ازاں کتب ور سیہ فقہ حدیث و تفسیر بھی انہی سے پڑھیں جن میں سے مثنوی شریف، احیاء العلوم اور مشکوٰۃ شریف خاص طور پر ذکر کی گئی ہیں ۔ سولہ سال کی عمر میں آپ کو کلام مجید کے حفظ کا شوق پیدا ہوا ، اڑھائی سال کے عرصہ میں قرآن پاک یاد کر لیا ، قراء ت و تجعید مولانا محمد حسین مکی سے پڑھی ،حضرت حافظ صاحب نہایت دلکش آواز میں قرآن مجید پڑھتے تھے ، جس مسجد میں آپ نماز تراویح پڑھا یا کرتے وہاں لوگ مغرب کے وت ہی اپنی جگہ مخصوص کر لیتے تھے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر جگہ ہی نہ ملے ، غیر مسلم بھی مسجد کے متصل گلی میں بیٹھ کر آپ کے حسن قرا ء ت سے محفو ظ ہوا کرتے تھے۔
بیس برس کی عمر میں آپ کے دل میں محبت الٰہی کے جذبات موجزن ہوئے ، سو چا کہ کسی مرد خدا کی غلامی اختیار کی جائے تاکہ قرب الٰہی کی دولت میسر ہو چناچنہ جہاں کسی بزرگ کے متعلق سنتے کشاں کشاں پہنچ جاتے۔ جب آپ زندگی کی پچیسویں منزل طے کر رہے تھے تو پتہ چلا کہ حضرت خواجہ محمد المعروف بہ حضرت با با جی قدس سرہ ( چورہ شریف ) راولپنڈی تشریف لائیہیں ، پھر کیا تھا سراپا اشتیاق بن کر حاضر خدمت ہوئے۔ پہلی ہی نظر میں سو دلو جان سے فدا ہو گئے اور حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے ۔ حضرت با با جی قدس سرہ نے بھی نہایت شفقت و محبت سے نوازا اوریوں ایک لا فانی تعلق پیدا ہو گیا ۔ اس کے بعد حضر ت حافظ صاحب کا معمول بن گیا کہ ہفتہ عشرہ بعد چورہ شریف پہنچ جاتے ، جو بھی اچھی سے اچھی چیز نظر آتی خرید کر لے جاتے اور حضرت شیخ کی نذر کر دیتے اور مرشد کی تو جہا عالیہ سے مستفیض ہو کر واپس آجاتے اور یہ واپسی نئی حاضری کی تمہید بن جاتی ، آخر مدارج سلوک کو طے کرتے کرتے اس مقام کو پہنچ گئے ہ حضرت با با جی رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خرقئہ خلافت و اجازت سے نواز دیا
آپ دو دفعہ حج کی سعادت سے مشرف ہوئے ۔ پہلی دفعہ کسی وجہ سے حکومت نے حجاج کے مدینہ طیبہ جانے پر پابندی عائد کردی ، حضرت حافظ صاحب کی طبیعت میں اس بات کا بڑا قلق پید ا ہوا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضری نہ ہو سکی شاید آپمجھ سے ناراض ہیں ۔ ایک رات تہجد کے وقت سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آ پ کو حالت مراقبہ میں زیارت سے سر فراز فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس وقت واپس جانا ہی مناسب ہے ، انشاء اللہ تعالیٰ تمہیں پھر بلائیں گے! چنانچہ آپ ۱۹۱۱ء میں دوبار ہ حج کے لئے گئے تو دربار رسالت کی حاضری سے بھی مشرف ہوئے اور یہ کیفیت ہو گئی کہ واپسی کو قطعاً دل نہیں چاہتا تھا اور روزانہ دعا کیا کرتے تھے کہ مجھے دیار حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں ہمیشہ کے لء ے قیام نصیب ہو ۔
ایک روز عشاء کے بعد نورانی صورت بزرگ تشریف لائے اور فرمایا نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آپ واپس ہند جائیں آپ کے وجود سے بہت سی مخلوق فیضیا ب ہو گی اور آ پ کی قبر بھی وہیں ہوگئی ، ساتھ ی قبر ی جگہ بھی دکھادی گئی چنانچہ اسی جگہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا مزار پر اوانر بنا۔
حضرت حافظ صاحب قدس سرہ کثر الکرامات بزرگ تھے، آ پ کی سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ ااپ نے ہزاروں افراد کو ذکر و فکر کی لذت سے آشنا کردیا۔ بے شمار بے نماز آپ کے فیض صحب ت سے تہجد گزاربن گئے ، شیعہ اور مرزئیہ کا مدلل رد فرمایا کرتے تھے، متعدد افراد آپ کے دست حق پرست پر عقائد باطلہ سے تائب ہوئے۔ پہلے پہل آپ کا روبار کیا کرتے تھے لیکن بعد ازں ہمہ وقت خلق خدا کی رہنمائی میں صرف کرنے لگے ۔ آپ کی عام گفتگو اور وعظ و تقریر یا الٰہی ، اتباع سنت سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کی تلقین پر مشتمل ہو کرتی تھی۔
آپ کی شب و روز کی مصروفیات اس قدر زیادہ تھیں کہ ااپ تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکے ، تاہم ہدایۃ الانسان الی سبیل العرفان تصوف و اخلاق پر آپ کی نہایت اہم کتاب ہے ۔ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کا اردو میں ترجمہ کر واکر شائع کیا تاکہ علوم معارف کے اس بحر زخار کا فائدہ عام سے عام تر ہو ۔ اس کے علاوہ دعائے حزب البحر از حضرت امام ابو الحسن شا ذلی قدس سرہ کو از سر نو مرتب فرماکر شائع کیا ،اس ترتیب کے دوران متحدہ پاک و ہند کے اطرف و اکناف بلکہ مصر اور بیروت سے دعائے حزب البحر کے نسخے منگوئے اور انہیںسامنے رکھ کر ایک قابل وثوق نسخہ مرتب فرمایا ، عید گاہ راولپنڈی کی موجود ہ عمارت بھی آپ کی تو جہات کا نتیجہ ہے ۔
معاصرین میں سے مندرجہ ذیل حضرات سے آپ کے گہرے تعلقات تھے:۔
۱۔ حضرت پیر سید مہر علی شہ ، گولڑہ شریف
۲۔ حضرت میاں شیر محمد ، شعقپور شریف
۳۔ حضرت سائیں توکل شاہ ، انبالوی
۴۔ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ، علی پور شریف ( رحمہم اللہ تعالیٰ)
آپ کے ہاں چار صاحبزادے مولانا عبد العزیز(م ۱۳۴۲ھ/۱۹۲۴ء) مولانا عبد الرحیم جانشینہوئے آپ نے ۲۷ ضات کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا جن میں سے فقیہ اعظم حضرت (۲۶۰پیج نمبر) مولانا حکیم خادم علی ، خواجہ صوفی نواب الدین موہری شریف ، مولانا عبد الرحمن(فرزند ) اور مولانا قاضی عالم الدین نہایت مشہور ہوئے۔
حضرت مولانا حافظ محمد عبد الکریم قدس سرہ کا وصال ۲۸ ،صفر ،۲۰ مئی (۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء) بروز بدھ ہوا، آپ کا مزار پر انوار عید گاہ راولپنڈی میں مرجع خلائق ہے۔ فقیہ اعظم مولانا محمد شریف کوٹلی لو ہاراں نے قطعۂ تاریخ وفا ت کہا ؎
قبلۂ دین و کعبۂ ایماں
ناصر دین و مذہب ن عماں
وارث علم مصطفوی
قطب و ہر غوث زماں
چشمئہ فیض و عارف کامل
مطلع نور معدن عرفاں
یعنی شیخ عبد کریم
واقف علم و حافظ قرآں
در شب بستم ماہ مئی
گشت از چشم ما پنہاں
ہاتف گفتہ سال و صلش
پیر عظیم زیب جناں [1]
[1] آثار الکریم ( سوانح حیات ) ( تبصرف از راقم)
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)