سلیمان زماں حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ العزیز
سلیمان زماں حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ العزیز (تذکرہ / سوانح)
شاہ شاہاں،فخر دوراں،پیر پٹھان حضرت خواجہ محمد سلیمان توسنوی ابن محمد زکریا ابن عبد الوہاب بن عمر خاں قدست اسرارہم کی ولادت ۴۸۱۱ھ؍۰۷۷۱ء کوہ سلیمانگر گوجی نامی وادی میں ہوئی جو تونسہ شریف سے کچھ فاصلے پر واقع ہے خاندانی طور پر آپ کا تعلق پٹھانوں کے قبیلہ جعفر سے تھا جو علم و عبادت اور حیاء و شرافت میں نہایت ممتاز تھا۔ بچپن ہی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا،والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا کیونکہ انہوں نے آپ کی ولادت سے قبل خواب میں دیکھا تھا کہ آفتاب آسمان سے اتر کر ان کی آغوش میں آگیا ہے اور سینکڑوں لوگ مبارک باد دے رہے ہیں۔چار سال کی عمرمیں ملا یوسف جعفر کے پاس قرآن کریم پڑھنے کے لئے بٹھائے گئے،ان س پندرہ پارے حفظ کئے بعد ازاں بگی مسجد تونسہ شریف میں میاں حسن علی کے پاس جاکر قرآن کریم کی تکمیل کی اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں،مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے دشوار گزرا راستوں کو طے کرتے ہوئے کوٹ مٹھن پہنچے جہاں حضرت مولاناقاضی محمد عاقل قدس سرہ کے مدرسہ میں علو م دینیہ کی تحصیل و تکمیل کی[1]
حضرت شاہ علم و عرفاں تونسوی کو تبلیغ دین سے بے حد لگائو تھا اسی بنا پر جب آپ کو پتہ چلاکہ حضرت قبلۂ عالم خواجہ نور محمد مہاروی قدس سرہ بڑے ذوق و شوق سے قوالی سنتے ہیں،سو چاکہ کیوں نہ انہیں اس خلاف شریعت کام سے رو کا جائے چنانچہ یہ عزم لئے حضرت کواجہ مہاروی کی خدمت میں پہنچے لیکن وہاں پہنچتے ہی طالب صادق اور محب مخلصن بنکر حلقۂ ارادت میں داخل ہو گئے۔حضرت مولانا فخر جہاں دہلوی نے حضرت کواجہ نور محمد مہاروی کو حکم دیا تھا کہ:۔
’’کوہ سلیمان کو چوٹیوں پر ایک بلند پرواز شہباز رہتا ہے،اسے تلاش کر کے اپنے حلقہ میں داخل کرنا کہ اس سے سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ کو تبلیغ و اشاعت کے چار چاند لگ جائیں گے۔‘‘
چنانچہ حضر خواجۂ مہاروی اس بلند آشیاں شہباز کی تلاش میں اوچ شریف اور کوٹ مٹھن کا سفرکیا کرتے تھے،آخر ایک دن اوچ شریف میں وہ شہباز حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی کی صورت میں مل گیا جسے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا:۔
’’آری بسیار بلند بہ نظر می آید‘‘
اور حضرت جلال الدین سرخ بخاری کی خانقاہ میں آپ کو بیعت فرمایا۔
حضرت ملجائے بکیساں شاہ محمد سلیمان تونسوی تقریباً چھ سال تک آستانۂ شیخ پر رہے اور پیرو مرشد کی اس جاں سپاری سے کدمت کی کہ کہنہ سال مریدین اور خدام سے کہیں آگے نکل گئے۔اس عرصے میں مرشد کامل سے آداب الطالبین،فقرات، لوائح،عشرہ کاملہ اور فصوص الحکم وغیرہ کتب تصوف پڑھیں اور ساتھ ساتھ منازل عرفان بھی طے کرتے رہے۔ ۱۹۱۹ء میں حضرت خواجہ نور محمد مہاروی قدس سرہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت شاہ فخر الدیندہولی قدس سرہ کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے دہلی پہنچے مگر وہاں پہنچے پر پتہ چلاکہ حضرت شاہ فخر الدین دہلوی قدس سرہ کا وصال ہوگیا ہے[2]
۲۲ سال کی عمر میں قبلۂ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہاروی قدس سرہنے خرقۂ خلافت عطا کر کے تونسہ شریف میں قیام کا حکم دیا۔رفتہ رفتہجب رشد و ہدایت کا چرچا ہوا تو دور دور سیلوگ شرف بیعت حاصل کرنے کیلئے حاضر دربار ہونے لگے،نواب بہاول کاں والئی ریاست بہاول پور بھی حلقۂ خدام میںداخل ہو گئے۔
آقائے نعمت مرشد طریقت سے آپ کو عشق کی حد تک محبت و عقیدت تھی، ان کے فراق میں طبیعت بے چین ہو جاتی تو پا پیادہ ہی مہار شریف کا سفر شروع کر دیتے۔آپ نے تونسہ شریف میںقیام کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ وہاں دینی تعلیم عام کرنے کے لئے مدرسہ جاری کیا اور پھر اس کام نے اس قدر ترقی کی کہ ہر طرف قال اللہ وقال الرسول کی صدا میں بلند ہونے لگیں اور تونسہ شریف دلبستان علم و عرفان بن گیا، اس دور م یں تونسہ شریف علوم دینیہ کی وہ عظیم الشان یو نیورسٹی تھی جس میں تقریباً دو ہزار طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے اور ۵۰مدرسین تعلیم دینکا فریضہ انجامدیتے تے۔ تمام علماء طلباء اورخدام کے لئے قیام و طعام اور لباس کا انتظام مدرسہ کی طرف سے تھا۔ حضرت پیر پھان قدس سرہ خود خاص مریدوں اور شاگردوں کو سلوک و طریقت کی کتابوں کا درس دیا کرتے تھے[3]
شاہ شاہاں حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ نے تبلیغ دین اور رشد و ہدایت کو ہمہ گیڑ طریقے پر عوام الناس تک پہنچایا۔آپ کے روحانی فیض سے نہ صرف بر صغیر پاک و ہند بلکہ کابل،ایران،لنکا،عدن اور ترکستان کے عوام و خواص مستفید ہوئے۔
حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ فرماتے ہیں:۔
’’ولایت اور بیعت میں حضرت خواجہ مہاروی کی اتنی شہرت نہیں ہوئی جتنی شہرت حضرت خواجہ تونسوی کی ہے چنانچہ بلخ،بخارا، ایران،ہرات، ہند،سندھ اور حرمین شریفین کے لو۲گ اپنی استعداد کے مطابق ان سے مستفیض ہوئے[4]‘‘
یہ وہ دور تھا جب کہ پنجاب پر سکھوںکا تسلط تھا اور انگریزی اقتدار بڑی سرعت سے پھیل رہا تھا،آپ نے واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کو احساس دلایا کہ تمہاری کامیابی کا راز کتاب و سنت کی پیروی اور اخلاق و کردار کو سنت مبارکہ کے سانچے میں ڈھالنے سے ہے،آپ نے واضح طور پر فرمایا:۔
’’چونکہ مسلمانوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی ترک کردی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے کیافوں کو ان پر ملسط کردیا ہے[5] ‘‘
آپ نے تمام عمر شریف ملت اسلامی میں نئی روح پھونکنے میں صرف کی اور سینکڑوں ایسے افراد تیار کئے جو عظمت اسلام کے علمبردار اور صحیح معنوں میںملت اسلامیہ کے نقیب تھے،لاکھوںافراد آپ کی ہدایت سے حیات جاودانی کے راز سے آشنا ہوئے اور بیسیوں اجازت و خلافت سے مشرف ہو کر رہبر خلائق بنے۔تاریخ مشائخ چشت میں آپ کے ۲۳ خلفاء کے اسماء مبرکہ کا ذکر کیا گیا ہے،چند خلفاء کے اسماء گرامی یہ ہیں:۔
۱۔ شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی ۔
۲۔ حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی۔
۳۔ حضرت خواجہ احمد میروی۔
۴۔ حضرت مولانا محمد علی مکھڈوی۔
۵۔ مولانا محمد علی خیر آبادی(شہید تحریک آزادی مولانا محمد فضل حق خیر آبادی کے استاذ)
۶۔ سید احمد مدنی (عرب شریف)
۷۔ سید مستان شاہ (افغانستان)
۸۔ فاضل شاہ (کشمیر)
۹۔ حسن شاہ (قندھار)
۱۰۔ ولی اللہ (خراسان)
۱۱۔ فیض بخش (بیکانیر ) وغیر ہم قدست اسرارہم[6]
حضرت خواجۂ خواجگان شاہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ کے ملفوظات سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں،آپ افکارو کردار کی اصلاح پر خاص طور پر توجہ دیتے تھے،چند ملفوظات طیبہ درج کئے جاتے ہیں:۔
٭ علم بغیر عمل اور عمل بغیر عقیدئہ اہل سنت و جماعت فائدہ نہیں پہنچاتا۔
٭ توحید کا پھول اس زمین میںنہیں اگتا جہان شرک،حسد اور ریاء کے کانٹے موجود ہوں۔
٭ سالک کو چاہئے کہ اپنے عیوب پر نظر رکھتے ہوئے دوسروں کے عیبوں سے آنکھ بند کرلے
٭ کلمۂ طیبہ کا ذکر با لجہر تمام اور اد سے بہتر ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ بہترین ذکرلا الہٰ الا اللہ ہے
٭ علم سے مقصود عمل و ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا ہے۔
٭ عورتوں اور لڑکوں سے عشق کرنا ایک بلا ہے،اس سے دور رہنا چاہئے۔
٭ خداورسول۰جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے ذکر کے بغیر سب درد سر ہے۔
٭ شریعت کی ظاہری اور باطنی طور پر اتباع کے بغیر کمال انسانی کا حصول نا ممکن ہے ۔
٭ سالک کو چاہئے کہ اپنے آپ کو بد مذہبوں کی صحبت سے دور رکھے اگر چہ ان کی صحبت میں دنیاوی فوائد ہوں،ان کے میل جول سے بھوکا اور ننگا رہنا بہتر ہے[7]
غرضزندگی کے مختلف پہلوئوں پر آپ کی نظر ہمہ گیر تھی اور حسب موقع ہر بُرے کام سے ممانعت لازم جانتے تھے،اہل دنیا سے پوری طرح احترار فرماتے تھے بلکہ مریدین کو بھی ان سے اجتناب کی تلقین فرماتے تھے،اگر کبھی ان سے ملاقات کا اتفاق ہوتا تو کمال خود واری اور استغناء سے پیش آتے۔
۷صفر المظفر،۱۳(دسمبر ۱۲۶۷ھ؍۱۸۵۰ئ) کو آپ کا وصال ہوا۔آپ کے دوصاحبزادے حضرت خواجہ گل محمد اور حضرت خواجہ درویش محمد آپ کی حیات ظاہرہ ہی میں وصال فرما گئے تھے اس لئے آپ کے بعد آپ کے پوتے حضرت خواجہ اللہ بخش تونسوی قدس سرہ سجادہ نشین ہوئے۔نواب بہاول پور نے ۷۰ ہزار روپے خرچ کر کے سنگ مر مر کا عالیشان مقبرہ بنایا۔
مولوی حسین علی فتح پوری نے تاریخ وصال یوں نظم کی ہے ؎
سلیمان زماں رحلت چو فرمود
یکا یک در جہاں ظلمت بیفزود
پئے سال و فاتش ہاتف غیب
بگفت’’اوآفتاب چشتیاں بود[8] ‘‘
[1] خلیق احمد نظامی،پروفیسر: تاریخ مشائخ چشت،ص۲۱۱۔۲۱۳
[2] خلیق احمد نظامی،پروفیسر: تاریخ مشائخ چشت،ص۲۱۳۔۲۱۵
[3] خلیق احمد نظامی،پروفیسر: تاریخ مشائخ چشت،ص۶۱۲۔۶۲۲
[4] محمد سعید،مولانا سید : مرأۃ العاشقین،ص۱۱۳
[5] خلیق احمد نظامی،پروفیسر: تاریخ مشائخ چشت،ص۲۴۵
[6] ایضاً: ص ۵۔۶۶۵
[7] خلیق احمد نظامی،پروفیسر: تاریخ مشائخ چشت،ص۶۳۲۔۶۵۲
[8] خلیق احمد نظامی،پروفیسر: تاریخ مشائخ چشت،ص۶۶۲
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)