مرجع الکاملین حضرت خواجہ محمد عثمان نقشبندی قدس سرہٗ
مرجع الکاملین حضرت خواجہ محمد عثمان نقشبندی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
شیخ المشائخ حضرت خواجہ محمد عثمان نقشبندی قدس سرہ ۱۲۴۴ھ؍۱۸۰۹ء میں بمقام لونی تحصیل کلانچی ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خاں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد (نام معلوم نہیں ہوسکا)نہایات متقی اور پرہیزگارتھے،انہوں نے آپ کو علوم دینیہ کی تحصیل پر لگادیا۔تکمیل علوم کے بعد حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری(م۱۲۸۴ھ؍۱۸۶۷ئ) موسیٰ زئی شریف (ڈیرہ اسمٰعیل خاں) خلیفہ حضرت شاہ احمد سعید دہلوی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ۹جمادی الاخریٰ(۱۲۶۶ھ؍۱۸۵۰ئ) کو بیعت ہر کر مدارک سلوک طے کرنے کے علاوہ علم اخلاق،علم سیر،علم تصوف اور علم حدیث کی تحصیل کی اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ احمد یہ قادریہ چشتیہ سہروردیہ کبرویہ مداریہ قلندریہ شطار یہ م یں ماذون مجاز ہوئے ۔
آپ نے جس محنت و جانگدازی سے اپنے شیخ کی خدمت کی،کوئی اور مریدنہ کرسکا شیخکامل بھی آپ پر عنایت بے غایت کرتے تھے حتیٰ کہ جب حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری قدس سرہ کا ۲۲شوال المکرم(۱۲۸۴ھ) کو وصال ہوا تو موسیٰ زئی شریف میں ان کے ایماء اور اجازت سے آپ ہی سجادہ نشین ہوئے اور بڑی خوبی سے فرائض نیابت کو انجام دیا۔پیرو مرشد کے وصال سے تین سال بعد کمال اشتیاق سے زیارت حرمین شریفین کے لئے روانہ ہو گئے،حج سے فارغ ہو کرمدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور گیارہ دن تک قیام کیا،اس دوران کھانا پینا ترک کردیا تاکہ قضائے حاجت کی ضرورت نہ پڑے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ جہاں قضائے حاجت کی جائے وہاں سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا پائے اقدس آیا ہو،ذرااندازہ کیجئے کہ دیار حبیب کا ان کے دل میں کس قدر احترام تھا۔
حضرت خواجہ محمد عثمان قدس سرہٗ ہر فعل میں اتباع سنت کو پیش نظر رکھتے اور کسی کام میں خلاف سنت کو روانہ رکھتے تھے۔خانقاہ پر حاضر درویشوں کو نماز تہجد کے لئے اٹھنے مراقبہ کرنے اور کثرت ذکر کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔باوجود یکہ آپ کے ہزاروں تھے لیکن کرنفسی کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے تھے ’’مجھے پیری اور بزرگی کا دعویٰ نہیں ہے، میں تو حضرت پیر و مرشد کے مزار پر انور کا جاروب کش اور درویشوں اور زائرین کا خدمت گار ہوں‘‘ کئی عقیدت من پیش کش کرتے کہ ہماری زمین،جائداد اور باغ وغیرہ قبول فرمالیجئے تاکہ لنگر کا کام چلتا رہے آپ فرماتے کہ :’’لنگر کے اخراجات اللہ تعالیٰ کے توکل پر موقوف میں ہمارے مشائخ کا یہی طریقہ تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ ترد نہیں کرتے تھے‘‘ اور پیشکش بری خوبصورتی سے ٹال دیتے ۔آپ کے ملفوظات اور مکتوبات مواعظ و حکم کے بہترین جواہر پارے ہوتے تھے۔ملفوظات، کرامات اور مکاتیب پر مشتمل مجموعہ فوائد عثمانی مرتبہ سید محمد اکبر علی شاہ دہلوی چھپ چکا ہے آپ سے بے شمار افراد نے کسب فیض کیا اور درجۂ کمال کو پہنچے آپ سے بکثرت کرامات کا ظہور ہو ا اور خلق خدا کو ظاہری و باطنی عام نفع پہنچا آپ کے مرید مولوی حسین علی واں بھچروی (ضلع میا نوالی،مؤلف بلغۃ الحیران ایک روز یہ سوچتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اولیاء کرام کو بعض چیزوں کا علم ہوتا ہے یا اکثر کا، اور توجہ کے بعد حاصل ہوتا ہے یا بغیر توجہ کے ؟ اس وقت آپ کسی شخص سے پشتو میں گفتگو کر رہے تھے،مولوی صاحب کے آتے ہی متوجہ ہو کر فرمایا:
’’اولیاء ہمہ میدانند ولکن مامور باظہار نیستند[1] ‘‘
یہ کہہ کر پھر اسی طرح محو گفتگو ہو گئے۔
سید سردار علی شال بخاری ملتانی کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:۔
’’اے عزیز! اوقات مستعارئہ خودار کہ بدل ندبطاعت و عبادات و اذکار وافکار روردکہ سعادت در وین است غیر ازیں ہمہ ہیچ وانجام حاجات ضرور یہ لا بدیہ بوسیلۂ پیران کبار علیہم الرضوان وارلرحمۃ ہموارہ میخو استہ باشند انشاء اللہ تعالیٰ بہدف اجابت رسند‘‘
آپ نے کثیر التعداد مریدین کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا،خود حضرت خواجہ دوست محمد قنداری رحمہ اللہ تعالیٰ کے متعدد خلفاء ان کے وصال کے بعد آپ سے مستفیض ہوئے،آپ کے فرزند اجمند حضرت مولانا سراج الدین خلیفہ و جانشین ہوئے۔
۲۲شعبا المعظم، جنوری(۱۳۱۴ھ؍۱۸۹۷ئ) بروز منگل اشراق کے وقت آپ کا وصال ہوا،موسیٰ زئی شریف(ڈیرہ اسمٰعیل خاں) میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے[2]
حافظ محمود حسن خاں نازاں چشتی سلیمانی رئیس اعظم جھجر
نے قطعۂ تاریخ وفات کہا ؎
بست و دوم زما ہے شعبان محترم بود
رفتہ بسوئے جنت کاں ہمسر فرشتہ
سال وفات حضرت بہر صواب نازاںؔ
عثمان نقشبندی کامل ولی نوشتہ[3]
[1] محمد اکبر علی شاہ دہلوی،سید: مجموعۂ فوائد عثمانی ص ۷۳
[2] ایضاً:ص ۱۲۸۔۱۳۷(تقریباً تمام حالات اسی سے ماخوذ ہیں)
[3] ایضاً : ص۱۴۴
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)