پیر خرابات حضرت خواجہ سناء اللہ خراباقی قدس سرہ
پیر خرابات حضرت خواجہ سناء اللہ خراباقی قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
پیر خرابات حضرت خواجہ سناء اللہ خراباقی قدس سرہ ۱۲۲۴ھ/۱۸۰۹ء میں بمقام طنگاہ ضلع بلند میر (سر ینگر) میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔آپ کا سلسلۂ نسب عارف باللہ حضرت عبد الرحمن بلبل شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملتا ہے ۔ آپ کے نانا حضرت سید عبد الغفور شاہ اپنے زمانہ کے با کمال بزرگ تھے انہوں نے باطنی تر بیت کے ساتھ ساتھ آپ کو رفو تری کا فن بھی سکھایا چنانچہ آپ ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء تک رفو گری کا کام کرتے رہے ، اس کے ساتھ آپ کو تجارت کا بھی شوق رہا ،اس سلسلے میں ایران ، کامل اور کلکتہ جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ بچپن میں ایک بچے نے کھیلتے ہوئے آپ کو بتہ چلا تو دوڑ تے ہوئے پتھر دے مار ا جس سے آپ کی موت واقع ہو گئی۔آپ کے نانا حضرت سید عبد الغفور شاہ کو پتہ چلا تو دوڑ تے ہوئے آئے اور انہیں اپنے ساتھ چمٹا لیا، پھر بارگاہ ایزوی میں دعا کی ، تنیجہ یہ ہوا کہ آپ کو حیات نو مل گئی[1]
حضرت خواجہ سناء اللہ کی تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی مدرسہ میں نہیں پڑھے وہ اپنی اصطلاح میں ناخواندہ تھے لیکن ان کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ علم و فضل کے بحر زخار تھے ، انہیں جو کچھ حاصل ہو وہ بزرگان علم و ادب اور خاص طور پر آپ کے نانا سید عبد الغفو ر شاہ کی مجلس کا فیض تھا قدرت ن ے غیب سے ان کے علم و عرفان کے اسباب فراہم کردئے تھے۔خواجہ صاحب کشمیری،فارسی،عربی،اردو،ترکی اور پنجابی زبانوں سے اچھی طرح با خبر تھے، نجوم ، ہند سہ ، ہیئت،قیافہ شناسی ، تعبیر ، عروض ، اخلاق،طلسمات، کیمیا، طب ، فقہ تجوید ، انساب ، رجال ، صرف نحو،معانی ،بیان وغیرہ علوم میں دستر س رکھتے تھے[2]
آپ سلسلہ قادریہ میں اپنے نانا سید عبد الغفور رحمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت اور مجاز تھے، حضرت سید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہیں بے پناہ عقیدت تھی جس کا اظہار انہوں نے مختلف قصائد اور متعدد کتب میں کیا ہے[3]
تجارت کے سلسلے میں آپ کو مختلف مقامات کی سیر کا موقع ملا،اس دور ان آپ نے بہت سے مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور استفادہ کیا چنانچہ سب سے پہلے اپنے نانا سید عبد الغفور شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے مستفیض ہوئے بد ازاں شاہ محمد صادق کے مرید ہوئے اورتیس سال تک ان سے کسب فیض کیا، اس کے بعد لاہور میں وارد ہوئے اور حضرت میاں میر قدس سرہ کے فیضان صحبت سے بہرہ سر ہوئے ، پھر تجارت کے لئے کلکتہ گئے اور حضرت عبد الوہاب کی مجلس میں حاضریکا موقع ملا ، وہاں سے وار کشمیر ہوئے اور حضرت طیب سے فیض صحبت حاصل کیا ، پھر کامل گئے اور حضڑت شاہ قلندر سے روحانی برکات حاصل کیں ، حضرت غلام الدین خراسانی سے بھی اکتساب رشد و ہدایت کیا۔ حضرت شاہ دولہ دریائی سے روحانی طور پر استفادہ کیا ، غرضیکہ حضرت پیر خرابات نے پوری کوشش کی کہ جہاں سے بھی انوار معرفت حاصل ہو سکیں ، حاصل کئے ج ائیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ بزرگان دین کی کیمیا اثر نگاہ نے آپ کو کند بنادیا۔
اس سیرو سیا حت سے واپس آئے تو آپ کے علاقے میں بہت بڑا سیلاب آیا ، مجبوراً نقل مکانی کرکے نیا بازار متسل شیردروازہ (جموں ) میں آکر مقیم ہوگئے۔ ایک دن اتفاقاً سر بازار مہار اجہ گلاب سنگھ سے ملاقات ہوئی ، اسے گفتگو سے معلوم ہوا کہ آپ متدد علوم و فنان میں ید طولیٰ رکھتے ہیں تو بڑا متاثر ہو اور آپ کو توشہ خانہ کا انچارج مقرر کر یدیا ، جموں میں آپ صمد جیو کے نام سے مشہور ہوئے ، اس زمانے میں دور درازکی سیو سیاحت کی اور ایک طویل زمانہ تک اپنے فراض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے[4]
۱۲۷۱ھ/۱۸۵۴ء میں مہاراجہ کے تین وزیروں نے ااپ پر غبن کا الزام لگایا، مہاراجہ نے تحقیق کے بغیر آپ کو قلعہ ہری پر بت میں قید کر دیا ،ایک عرصہ بعد ایک دوست کی و ساطت سے رہائی پاکر پنجاب کی طرف چلے گئے ، جالندھر ، امرتسر اور سیالکوٹ میں مختصر مدت ایام کرتے ہوئے جلال پورجٹاں آکر مقیم ہوگئے اور تا حیات یہیں رہے[5]
یہاں آپ کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا،خلق خدا کی ہدایت و تربیت پر خاص طور سے توجہ دی ،لنگر قائم کیا جہاں سے نہ صرف غرباء فقر اء اور مسافروں کو کھانا مہیا کیا جاتا بلکہ ضرور تمندوں کو لباس تک مہیا کیا جاتا ، دنیاوی مال و اسباب کو خاطر میں نہ لاتے بلکہ جو کچھ ہوتا،راہ خدا میں صرف کر دیتے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اسباب کو خاطر میں نہ لاتے بلکہ ہوتا ، راہ خدا میں صرف کر دیتے ۔ا ن کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آج کی روزی آج اور کل کی روزی کل عطا فرمانے ولا ہے ۔ وضو کے لئے صرف ایک لوٹا رکھا ہو ا تھا اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ۔ ایک دفعہ آپ کے مرید خاص خواجہ نظر محمد نے بازار سے سونے کا ایک زیور خرید،آپ کو پتہ چلا تو بہت برا بھلا کہا اور فرمایا:۔
’’میرے پاس جو کچھ تھا میں نے جھاڑ و دے کر سب ن کال باہر کیا تم اسے دوبار ہ گھر لاتے ہو ! جتنا جلد ہو سکے اسے فقیروں میں تقسیم کردو[6]۔‘‘
حضرت خواجہ خرابقی رحمہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا اور بلندیٔ فکر سے نوازا تھا ، آپ کے قلم میں بلا کی روافی تھی ،ایک ایک دن میں پوری کتاب تحریر کر دیتے جسے ایک ہفتے میں بھی مچکل سے پڑھا جاتا ۔آپ نے نظم و نثر میں تقریباً ایک سوکتابیں کھیں جن میں سے باون گصانیف زمانے کی دستبر د سے محفوظ ہیں،ان تصانیف کی مفصل فہرست محمد حسین تسبیحی نے مرتب کی ہے جسے مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان (راولپنڈی) نے فہر ست نسخہ ہائے خطی خواجہ سناء اللہ خراباقی کے نام سے ۱۹۷۲ء میں شائع کیا ہے ،اس طرح قریباً ایک صدری کے بعد علمی حلقوں میں آپ کی تصانیف کا تعارف ہو رہا ہے ۔
حضرت خواجہ صاحب کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ بحر الا نوار
تقریباً تین ہزار چھہ اشعار پر مشتمل ہے ، دینی اور اختلافی مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں
۲۔تحفہ القادری
بارہ سو اسّی ۱۲۸۰ اشعا ، مناقب حضرت سید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
۳۔ تذکرہ الکاملین اولیاء اللہ کے اقوال و افعال پر مشتمل ہے ۔
۴۔ تذکرہ الواصلین
سلسلۂ قادریہ اور قلندریہ کے احوال و افکار کے بیان میں ہے ۔
۵۔ تصدیق الایقان تین ہزار دوسو اشعار پر مشتمل ہے ، اس کا موضوع فقہ وحدیث اور اخلاق و ادب ہے ۔
۶۔ تفسیر سنا ( جلد دوم ) چار ہزار چھ سو اشعار مشتمل مختلف آیات قرآنیہ کی تفسیر ہے ۔
۷۔ حقیقۃ الا سلام
۸۔ دیوان خراباتی (تین جلد(
۹۔ سجات آفتابی در رد وہابی ۱۴۴۰ اشعا ر پر مشتمل ہے ۔
۱۰۔ رحیما(شمر الہدیٰ) کریما کی پیر وی میں اسی وزن پر پندو تنصائح بیان کئے ہیں ، یہ کتاب تیرہ سو اشعار پر مشتمل ہے ۔
۱۱۔ مثونی خلاصۃ الا سرار مسائل روح کو مختلف تمثیلات سے بیان کیا ہے ۔
۱۲۔ تحفۃ القادری یا ہد یۂ شاہ جیلاںموضوع ، نام سے ظاہر ہے وغیرہ وغیرہ آخر الذکر دو کتابیں طبع ہو چکی ہیں [7]
حضرت پیر خرابات رحمہ اللہ تعالی کسی کو بآسانی مرید نہیں کرتے تھے بلکہ ایسی کڑی شرطیں لگاتے کہ عام آدمی انہیں پورا نہیں کر سکتا تھا ، ااپ کے پانچ خلفاء مشہور ہوئے ہیں جن کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ خواجہ نظر محمد
۲۔ سید فضل شاہ جلال پور جٹاں ۔
۳۔ محمد احسن
۴۔ محمد صٓدق امر تسری
۵۔ سید عبد الغفار شاہ سیالکوٹی
حضرت خواجہ صاحب کی پقتی سیدہ فاطمہ بی بی بنت سید محمد شاہ کے صاحبزادے جناب سید ریاض حسین شاد باغ لاہور م یں مقیم ہیں ان کی کوشش ہے کہ حضرت پیر خرابات کی تصانیف کو شائع کر کے منظر عام پر لایا جائے ۔ انہی کی مساعیٔ جمیلہ سے محمد حسین تسبیحی نے خواجہ صاحب کی تصانیف کی تفصیل سے فہر ست مرتب کی ہے نیز انہی کی تحریک پر پروفیسر قریشی احمد حسین احمد قلعداری نے حضرت خواجہ صاحب کے سوانح حیات کتابی صورت میں قلم بند کئے ہیں۔
حضرت خواجہ سناء اللہ خرابا قی قدس سرہ کا وصال ۱۷ ذیعقدہ ، ۲۱ اکتوبر ( ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۹ئ) کو ہوا ۔ آپ کا مزار نور کلا چور متصل جلا جٹاں ( ضلع گجرات )میں ہے[8]
[1] قریشی احمد حسین قلعداری : پیر خرابات( مطبوعہ لاہور ۱۹۷۰ء )ص ۲۶۔۱۷
[2] محمد حسین تسبیحی : فہر ست نسخہ ہائے خطی خواجہ سناء اللہ خراباقی، (مطبوعہ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان راولپنڈی ۹۷۳، ص ۱۷
[3] محمد حسین تسبیحی : فہر ست نسخہ ہائے خطی خواجہ سناء اللہ خراباقی ، ص ۳۰۔۳۱
[4] قریشی احمد حسین ، پرفیسر : پیر خرابات ، ص ۲۳۔۳۵
[5] قریشی احمد حسین ، پرفیسر : پیر خرابات ، ص ۲۸۔۲۹
[6] محمد حسین تسبیحی : فہرست نسخہ ہائے خطی خواجہ سناء اللہ خراباقی ، ص ۳۷۔۳۵
[7] محمد حسین تسبیحی : فہر ست نسخہ ہائے خطی خواجہ سناء اللہ خراباقی۱۰۔ ۱۸۲
[8] قریشی احمد حسین ، پروفیسر پیر خرابات : ۳۴
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)