حضرت خواجہ حافظ عبدالخالق اویسی
حضرت خواجہ حافظ عبدالخالق اویسی (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ حافظ عبدالخالق اویسی رحمۃ اللہ علیہ
آپ اویسیہ خاندان کے کبریٰ مشائخ اور عظیم اولیاء اللہ میں سے تھے۔ صاحب وجد و سماع تھے۔ ذوق و شوق کے مالک تھے۔ سکرو جذب میں یگانہ روزگار تھے فقر و تجدید میں بڑی ثابت قدمی سے رہے بڑے بلند رتبہ تھے۔ روحانی فیضان جناب حضرت قرنی قدس سرہ سے پایا تھا۔ صاحب اجازت تھے اور تلقین و ارشاد میں معروف ہوئے ساری زندگی لوگوں کی اصلاح و ہدایت میں گذار دی چونکہ آباواجداد سے علم و فضل کی دولت ملی تھی۔ اس لیے جامع فضل ظاہری و باطنی ہوگئے حافظ ظاہرین محمود بن حافظ یعقوب آپ کے والد ماجد تھے جن کا فتوی چلتا تھا۔ وہ عالم عامل اور حافظ کامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا راہ دکھانا چاہا تو سب سے پہلے حضرت بلہے شاہ قصوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے بھائی گل شیر کو بھی ساتھ لے کر حضرت شیخ عبدالحکیم قادری قدس سرہ (جو اس وقت قطب وقت تھے) کی خدمت میں حاضری دی۔ حضرت عبدالحکیم ان دنوں موضع تنبیہ میں رہتے تھے۔ حضرت شاہ عبدالحکیم نے مراقبہ فرمایا تو ان کے بھائی گل شیر کو تو بیعت کرلیا۔ مگر حضرت بلہے شاہ کو فرمایا کہ آپ حضرت شاہ عنایت قادری (قدس سرہ) کے پاس جاکر اپنا حصہ لے لیں خواجہ عبدالخالق کو فرمایا کہ تمہارا حصہ تو ایک ایسے شخص کے پاس ہے جو اس وقت دنیائے فانی سے رخصت ہوگیا ہے اب اپنے گھر میں گوشہ نشینی اختیار کرو اور اللہ کی عبادت اور ریاضت میں مشغول رہو۔ یاد رہے اس ذکر اور عبادت کے دوراں درود مستغاث کا ورد کرتے رہو۔ اس طرح اللہ کی جناب سے تمہارے پیر کا فیض خود بخود آتا رہا کرے گا۔ حضرت خواجہ وہاں سے رخصت ہوئے چند ماہ اسی حالت پر گزرے۔ حجرے میں پڑے رہتے درود مستغاث پڑھتے رہتے ناگاہ ایک دن ایسا ہوا۔ کہ ایک نورانی شخص سامنے آیا اور آتے ہی اسلام علیکم کہا حضرت خواجہ نے سلام کا جواب دیا۔ لیکن جونہی اس نورانی شخصیت سے آنکھیں ملائیں بے ہوش ہوکر گر پڑے سارا دن بے ہوش رہے شام کے وقت ہوش میں آئے تو دوبارہ عبادت میں مشغول ہوگئے دوسرے دن پھر وہی واقعہ پیش آیا مگر آپ کو یہ معلوم نہ ہوسکا۔ کہ یہ نورانی شکل والا کون ہے اور کہاں سے آیا ہے تیسرے دن زیارت ہوئی تو قدم پکڑ لیے۔ اور نام نامی دریافت کیا۔ اور ان کے مقام و مولد کا پوچھا۔ انہوں نے فرمایا ہمارا نام خواجہ اویس بن عامر قرنی ہے ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تمہاری راہنمائی کروں خواجہ عبدالخالق کو بیعت کیا یہ بات سنتے ہی آپ پھر بیہوش ہوکر گرپڑے تین دن رات ایسی کیفیت رہی تیسرے دن آپ کے ہمسایہ کے گھر سے سرود کی آوازیں بلند ہوئیں یہ آوازیں ایک شادی کی تقریب سے تھیں آپ نے ان گانے والوں کو اپنے پاس بلایا اور قوالی کرنے کا کہا آپ یہ سرود سن کر وجد میں جھومنےلگے یہ سلسلہ سارا دن رہا۔ ہوش میں آئے تو اپنے تمام متعلقین کو بلا کر فرمایا تمہیں مبارک ہو میرا کام مکمل ہوگیا ہے میں نے اپنے محبوب و مطلوب کو پالیا ہے۔
شیخ احمد بن محمود قدس سرہ نے ایک کتاب لطائف نفیسیہ فی فضائل اویسیہ لکھی ہے میں حضرت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ عبدالخاق قدس سرہ موضع ہانس پنجاب دریائے ستلج کے کنارے پر رہتے تھے۔ آپ حالت سکر و وجد میں اس حد تک مستغرق رہتے کہ نماز ادا کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ جب دوسرے نمازیوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہوتے تو امام سے اللہ اکبر سنتے ہی بے ہوش کر گر پڑتے۔ رکوع۔ سجود اور دوسرے ارکان نماز ادا نہ کرسکتے تھے۔ جب آپ کی حالت سکر زیادہ دیر ہوتی تو قوالوں کو بلایا جاتا وہ مسجد کے دروازے کے سامنے سرود کا آغاز کرتے تو ان کی آواز سے آپ بے ہوشی اور سُکر سے وجد میں آتے۔ آپ اللہ اکبر کے علاوہ قرآن پاک کی آیتہ کریمہ سن کر بھی بے ہوش ہوجاتے سرود کی آواز آتی تو ہوش میں آتے چنانچہ شیخ احمد اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں ایک بار بذات خود آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ زیارت کی آفتاب روحانیت اویسیہ سے آپ کا چہر تاباں ہوتا میں نے آپ کے منہ سے ارشاد و تلقین کی باتیں سنیں۔ جس کا اثر زندگی بھر میرے دل و دماغ پر رہا۔
آپ کی وفات۷؍ذِوالحجہ ۱۸۵ھ میں ہوئی۔ مزار پُر انوار مبارک پور متصل بہاول پور مرجع خلایٔق ہے۔ آپ کے تین صاحبزادے حافظ صالح محمد۔ ولی محمد اور قطب الدین تھے تینوں اولیاء اللہ تھے۔ صاحب کرامت تھے وجد و سماع شوق ذوق کےمالک تھے قطب الدین تو عنفوان جوانی میں ہی وجد سماع کی حالت میں زور سے اڑے اور آسمانوں کی بلندیوں کی طرف پرواز کر گئے اور نظروں سے غائب ہوکر ابدالوں میں جاملے سید عارف آپ کے خلیفہ تھے۔ آپ کا مزار بریلی میں ہے۔ شیخ محرم بھی آپ کے خلیفہ خاص تھے ان کا مزار لیہ میں ہے خواجہ محکم الدین صاحب الیسر بھی آپ کے خلفاء عالی شان میں سے تھے۔
وصل شد چو باذاتِ حق چوں عبد خالق نامور |
|
رفت روح پاک اوبر عرش از فرش زمین |
(خذینۃ الاصفیاء)