حضرت خواجہ نصیر بخش چشتی
حضرت خواجہ نصیر بخش چشتی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا نصیر بخش چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا نصیر بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے والد کریم حضرت خواجہ خدا بخش رحمۃ اللہ علیہ (کوٹ مٹھن شریف)کے شاگر د و مرید ِ خاص تھے۔مولانا حسام الدین صاحب المعروف حکیم محمد سوہانرا (فقیر کے بھی استاد تھے) مولوی محمد عبداللہ صاحب موہانے والا (تلمیذ مولانا احمد علی خانقاہ شریف والے و شاگردِ خاص شاہ جمالی) کے برادر و شاگرد تھے اور مولانا جندوڈہ صاحب چشتی سلیمانی کوٹ خلیفہ والے کے بھی شاگرد تھے (فقیر نے مولانا جندوڈہ کے پاس تحفۃ ا لاحرار پڑھی تھی) مخدومان بخاری اوچی کے استاد و دربار جلالیہ عالیہ کے خطیب تھے اور بہترین حکیم ، صوفی با صفا و عاشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، مدینہ منوّرہ میں بوقتِ تہجد فقیر نے مولانا حسام الدین صاحب کو خواب میں دیکھا کہ ریاض الجنۃ میں ان سے ملاقات ہوئی، مولانا نے فرمایا کہ میں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں صلوٰۃ وسلام پڑھ کر آرہا ہوں۔
نہ میر وآنکہ دِلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
بیدار ہوا تو جلدی سے وضو کرکے ریاض الجنۃ پہنچا۔
کرامات مولانا نصیر بخش رحمۃ اللہ علیہ:
یہی مولانا حسام الدین صاحب فرماتے ہیں: ایک دفعہ کسی مخالف نے بندوق سے کئی وار کیے لیکن تمام فائر بے کار گئے دوسری دفعہ مولانا نصیر بخش صاحب کسی کے گھر بیٹھے تھے اور وہ چھپروں کی لمبی قطار تھی، اچانک ایک چھپّر کو آگ لگ گئی اُ س سے متصل تمام چھپّروں کو آگ لگتی گئی، گھر والوں نے کہا کہ حضور! چھپروں کو آگ لگ گئی ہے باہر چلیے۔ مولانا صاحب نے فرمایا ہمارے عشق کی آگ اس سے کہیں زیادہ ہے، یہ آگ ہمارے گھر کے چھپّر کو نہیں جلا سکتی، تمام چھپّر جل گئے لیکن جس چھپّر کے نیچے مولانا نصیر الدین بخش صاحب بیٹھے تھے اُس کو آگ نہ جلا سکی۔
میرے مرشد کریم قبلہ شاہجمالی کریم فرماتے تھے کہ ہمارے مولانا نصیر بخش صاحب بہت بڑے عالم بڑے کامل تھے۔ ایک دفعہ رات کو مولانا مرید غوث سلیمانی تونسوی شاہجمالی میں تشریف لےآئے، شرح جامی کی ایک عبارت پہ مولانا نصیر بخش صاحب اور مولانا مرید غوث سلیمانی ک درمیان سوال و جواب ہوتے رہے ، حتٰی کہ صبح ہوگئی لیکن سوال و جواب ختم نہ ہوئے۔
مولانا مرید غوث صاحب فرماتے تھے کہ مولانا نصیر بخش صاحب شاہجمالی میں سوالات کے مخزن ہیں۔
مُرشدی شاہجمالی کریم فرماتے تھے کہ ایک شخص کی چوری ہوگئی تو مولانا نصیر بخش صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کی کہ میری گھوڑی واپس کرادو، آپ نے فرمایا نصف حصہ مجھے دیں تو گھوڑی واپس آجائے، گھوڑی والے نے انکار کیا، دوسرے شخص نے اس کو کہا کہ تم نے انکار کیوں کیا ہے؟ حضرت نے تو مذاق کیا ہے۔ وہ شخص واپس آکر پھر عرض کرنے لگا تو حضرت نے فرمایا اب نہیں، دوسرے شخص نے عرض کیا حضور! غلطی کی معافی چاہتے ہیں، پہلے تو آپ نے فرمایا ہے کہ آجائے گی۔ تو حضرت نے فرمایا کہ گھوڑی پہلے فلاں مقام پہ فلاں شخص کے پاس تھی، اس وقت گھوڑی کے لگام میرے ہاتھ میں تھی۔ اب میری حدود سے نکل چکی ہے، لہذا میں معذور ہوں۔ وہ دونوں اسی شخص کے پاس گئے جس کے متعلق آ پ نے فرمایا تھا کہ "فلاں کے پاس تھی" اُس شخص سے دریافت کیا تو واقعی جس وقت آپ نے فرمایا تھا کہ "اب میری حدود سے نکل چکی ہے" اُسی وقت دوسرا شخص وہاں سے لے گیا تھا، یہ دونوں حیران ہوگئے۔
نیز حضرت سیدی شاہجمالی فرماتے تھے کہ ایک دن استاذیم مولانا نصیر بخش صاحب فرمارہے تھے :کہ میرے پیر صاحب کے لڑکے (خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ) کی صاحبِِ کچہری (سرکارِ دو عالم ﷺ) داڑھی چومتے ہیں۔ ہم نے عرض کی کہ حضور! خواجہ سلیمان تونسوی کہاں ہوتے ہیں ؟ فرمایا "وہ مجلس کے انتظام میں کمر بستہ کھڑے رہتے ہیں"، پھر ہم نے عرض کیا حضور! آپ کہاں ہوتے ہیں؟ فرمایا "فقیر اللہ تعالیٰ کے ولیوں کی جوتیوں کی جگہ بیٹھے دیکھتا رہتا ہے۔
مولانا فتح محمد صاحب فرماتے تھے کہ میرے برادو و استاد حضور شاہجمالی نے فرمایا کہ ایک دفعہ مجھے حضرت مولانا نصیر بخش صاحب نے خواب میں زیارت کرائی، آپ کے پاس کھجوروں کے برتن بھرے ہوئے رکھے تھے، آپ نے ایک موٹی کھجور مجھے عطا فرمائی اور فرمایا "یہ باقی کھجوریں میرے لڑکے غلام یٰسین کے لیے ہیں، عرض کی غلام یٰسین؟ فرمایا "اللہ تعالیٰ تمہیں ایک لڑکا عطا فرمائے گا اُس کا نام غلام یٰسین رکھنا۔
نیز مولانا فتح محمد صاحب فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے مولانا نصیر بخش صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! کپاس میں ایک بہت بڑا سانپ بیٹھا ہے، کپاس چُننے نہیں دیتا، تو آپ نے ایک تعویذ لکھا، تعویذ کو لکھ کر چیرا تو وہاں سانپ دو ٹکڑے ہوگیا۔
آخر الامر جب مولانا نور الدین صاحب اپنے استاد مولانا نصیر بخش صاحب کے پاس آخری کتابوں کی تکمیل فرمارہے تھے تو مولانا دین محمد صاحب (جو کہ بہت عابد، زاہد و متقی تھے) نے مولانا نصیر بخش صاحب کی خدمت میں آکر عرض کی کہ حضور! میری لڑکی مئی راستی جواب بالغ ہوگئی ہے، جیسے ارشاد ہو؟ فرمایا :اس کا نکاح مولانا نور الدین سے کر دو، حافظ دین محمد صاحب نے عرض کیا :یہ تو مسافر ہے۔فرمایا کہیں نہیں جائیگا۔ آخر الامر حافظ صاحب نے اپنی دختر نیک اختر مسماۃ مئی راستی کا نکاح مولانا نور الدّین صاحب سے کردیا، جن کے بطن سے ۱۶، ذیقعدہ ۱۲۹۰ ھ بوقتِ سحور مولانا و مرشدنا حضور قبلہ فیض ِ عالم فیض محمد شاہجمالی نے دنیا میں ظہور فرمایا۔ دو سال بعد ۱۲۹۲ ھ میں آپ کی والدہ صاحبہ کا وِصال ہوگیا، بعدہٗ مولانا نصیر الدین صاحب نے ایک قصائیہ عورت سے نکاح کیا، جس سے مولانا گل محمد صاحب پیدا ہوئے ۔ جب اس بی بی کا وصال ہوا تو آپ نے تیسرا نکاح مسماۃ غلام فاطمہ سے کیا جن کے بطن سے مولانا فتح محمد صاحب و مولانا عطا محمد صاحب پیدا ہوئے اور ایک لڑکی (قبلہ شاہجمالی کے داماد حافظ عبد العزیز صاحب کی والدہ ) پیدا ہوئی ۔
(ماخوذ از : درج اللالی فی حیاتِ خواجہ شاہ جمالی۔مؤلفہ :مولانا محمد ظریف فیضی علیہ الرحمہ )