حضرت خواجہ سید محمد عیسی گنڈا پوری
حضرت خواجہ سید محمد عیسی گنڈا پوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ سید محمد عیسی گنڈا پوری رحمۃ اللہ علیہ
موضع چودھواں تحصیل کلاچی ضِلع ڈیرہ اسمٰعیل خاں (صوبہ سرحد) ؟؟؟ھ/؟؟؟ء۔۔۔ ۱۲۲۰ھ/ ۱۸۰۶ء موضع چودھواں ضِلع ڈیرہ اسمٰعیل خاں
قطعۂ تاریخِ وفات
صاحب کشف و کرامت شہِ گنڈا پُوری |
|
آپ کے نُور کی ہے صوبۂ سرحد میں ضیاء |
|
(صابر براری، کراچی)
آپ کی ولادت با سعادت موضع چودھیواں علاقہ گنڈا پور تحصیل کلاچی ضِلع ڈیرہ اسماعیل خاں (صوبہ سرحد) میں ہوئی۔ ظاہری تعلیم اپنے گاؤں ہی میں حاصل کی اور پھر تصوّف کی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آپ حضرت خضر علیہ السلام کے صحبت یافتہ تھے اور ہر روز اُن سے ملاقات کرتے تھے بلکہ آپ کی ابتدائی باطنی تربیّت حضرت خضرت علیہ السلام نے ہی کی تھی۔ اور اُنہی کے ارشارے پر ہی رامپور جا کر حضرت حافظ شاہ محمد جمال اللہ قدس سرہ کے دستِ حق پر سعادتِ بیعت حاصل کی اور عرصۂ دراز تک اُن کی خدمت بابرکت میں حاضر رہے۔ سفر و حضر میں ساتھ رہکر فیوض و برکات کے خزانے لُوٹے۔ پیر و مرشد کے محبوب اور راز دار خلیفہ تھے۔ اتنے منظورِ نظر اور با اعتبار تھے کہ آپ کے شیخ بعض مریدوں کو آپ کے حوالے کر دیتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت سیّد محمد جمال اللہ قدس سرّہ نے اپنے مریدوں سے ارشاد فرمایا کہ آج ہم سب لوگ اَورادو وظائف سے فارغ ہوکر شاہی قلعہ اور شاہی باغ کی سیر کو جائیں گے۔ چنانچہ حضرت خواجہ محمد عیسیٰ و دیگر خلفاء و مریدان کے ہمراہ شاہی قلعہ کے نزدیک پہنچے تو اُس وقت وہاں حضرت خواجہ فیض اللہ تیراہی قدس سرہ بطور سپہ سالار متعین تھے اور دیوارِ قلعہ پر پہرہ کی نگرانی فرما رہے تھے۔ جب اُن کی نظر حضرت شاہ جمال اللہ قدس سرہ پر پڑی تو بے خود ہوکر حاضر خدمت ہوئے، قدموں میں گے، تڑپے اور بے ہوش ہوگئے۔ دو تین گھنٹے بعد ہوش میں آئے تو بیعت کے لیے عرض کیا۔ آپ نے کشف سے معلوم کرلیا کہ اِن کا فیض باطنی حضرت خواجہ محمد عیسیٰ قدس سرہ کے پاس ہے۔ چنانچہ آپ کو اُن کے حوالہ کر کے فرمایا کہ اس کی بیعت اگرچہ میری طرف سے ہے مگر اس کی تکمیل تمہارے ذمّہ ہے چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔
آپ صاحبِ کشف و کرامات تھے۔ ایک دفعہ حضرت خواجہ فیض اللہ تیراہی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی قدمبوسی کے لیے حاضر خدمت ہو رہے تھے کہ راستے میں سخت علیل ہوگئے۔ یہاں تک کہ زندگی کی اُمید نہ رہی۔ ایک مسجد میں قیام پذیر ہو کر ہر وقت رو رو کر آپ کو یاد کرتے تھے۔ اُن کی آہ وزاری آپ تک پہنچتی تو خواجہ فیض اللہ کو دیکھنے کے لیے اپنے دردِولت سے روانہ ہوئے۔ جب اس مسجد میں پہنچے جہاں خواجہ محمد فیض اللہ مقیم تھے تو نماز مغرب سے فارغ ہو کر حجرہ میں داخل ہوئے۔ خواجہ محمد فیض اللہ آپ کو دیکھ کر وجد میں آگئے اور قدمبوسی کر کے قدموں سے لپٹ کر تڑپنے لگے۔ آپ نے انہیں اُٹھا کر سینے سے لگایا اور نور علی نور کردیا۔ کیونکہ خواجہ محمد فیض اللہ رحمۃ اللہ علیہ بہت کمزور ہوچکے تھے اور کافی دنوں سے کچھ بھی کھایا پیا نہ تھا۔ لہٰذ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی چیز کو دل سے چاہے تو تیار کریں۔ خواجہ محمد فیض اللہ نے عرض کیا کہ حضور!
’’جو نعمت مجھے اس وقت نصیب ہوچکی ہے یہی کافی ہے۔ یعنی آپ کا دیدار فیض بار‘‘۔
گر خواری یک لقمہ ازنانِ نُور |
|
اگر تو نور کی روئی کا ایک لقمہ ہی کھالے |
|
پھر آپ نے ایک پیالے میں سے تھوڑا سا ہریسہ (ایک قسم کا کھانا جو گندم کے آئے، گوشت کی یخنی اور دودھ سے پکایا جاتا ہے) نکالا اور ارشاد کیا کہ یہ تھوڑا سا کھالو انشااللہ تعالیٰ صحت عاجلہ کاملہ نصیب ہوگی۔ آپ نے حسب الحکم دو تین لقمے تناول فرمائے تو تمام حجابات اُٹھ گئے۔ بعد ازاں آپ کو سخت بھوک لگی اور آپ نے بقیہ تمام ہریسہ کھالیا اور سوگئے۔ دوسرے دن صبح بیدار ہوئے تو آپ مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے تھے۔
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی |
|
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی |
کرامات
۱۔ ایک دفعہ آپ اپنے خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ محمد فیض اللہ تیراہی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے لیے تیراہ شریف تشریف لے گئے۔ ایک دن مجلس میں خواجہ محمد فیض اللہ کے تمام صاحبزادگان کو طلب کیا اور دُعائے خیر فرمائی۔ جب خواجہ نور محمد سامنے آئے اور خواجہ محمد فیض اللہ نے عرض کی کہ حضور کہ میرے دوسرے بیٹے تو علومِ ظاہری سے فارغ ہوچکے ہیں مگر اس کا ذہن ابھی تک رسائی نہیں کرسکا یہی وجہ ہے ابھی تک صرف نصف قرآن پاک ختم کیا ہے۔ دُعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سینہ بے کینہ کو روشن کردے۔
آپکو صاحبزادہ نُور محمد کے حالِ زار پر بہت رحم آیا اور اُسے فوراً گلے سے لگالیا اور خصوصی توجہ سے نوازا۔ چنانچہ ان کا شرح صدر ہوگیا اور جلد ہی بڑی بڑی دقیق کتابوں پر حاوی ہو گئے اور دقیق سے دقیق مسائل بیان فرمانے لگے۔
۲۔ حضرت خوجہ فیض اللہ ہر سال آپ کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ عرس شریف کے موقعہ پر سخت بیمار ہوگئے اور پیر روشن ضمیر کی خدمت میں حاضری نہ دے سکے اور دوسرے ساتھیوں کے ذریعے پیغام بھیجا کہ:
’’آپ کے غلام بے دام کو آپ کے دیدار کا بے حد شوق تھا مگر کیا کرے علالت کی وجہ سے مجبور ہے، بستر سے ہل نہیں سکتا، معذور ہے‘‘۔
ساتھیوں سے یہ بھی کہا کہ جب تم لوگ واپس آؤ تو حضرت قدس سرّہ کے مبارک قدموں کے نیچے سے تھوڑی سی خاکِ پاک اٹھا تے لانا۔ جب سب ساتھی آپ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ فیض اللہ دیوانہ تمہارے ساتھ نظر نہیں آرہا۔ وہ کہاں ہے؟ ساتھیوں نے سب ماجرا عرض کیا اور دُعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے دیوانے کو سلام کے بعد کہنا کہ فقیر خود تمہاری ملاقات کے لیے آنا چاہتا ہے، غم و فکر کی کوئی بات نہیں ہے، انشااللہ تعالیٰ جلد ہی ملاقات ہوگی اور سب لوگوں کو دعائے خیر کے بعد اجازت رخصت دے دی۔
ساتھیوں نے حسبِ وعدہ آپ کے قدموں کی خاک حاصل کی اور وطن واپس آگئے۔ خواجہ محمد فیض اللہ کو اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی آمد کی خبر ملی تو بہت خوش ہوئے اور زبان حال سے ارشاد فرمایا۔
مژدہ اے دل کہ باد صبا باز آمد |
|
اے دلِ مبارک ہوکر بادِ صبا واپس آئی ہے |
|
دوستوں سے ملاقات کے بعد آپ نے اپنی امانت طلب کی۔ انہوں نے خاکِ پا آپ کے حوالے کردی اور یہ مژدہ بھی سنایا کہ آپ بنفسِ نفیس تشریف لارہے ہیں۔ یہ سن کر آپ پھولے نہ سماتے تھے اور بار بار یہ شعر دیوانہ وار پڑھتے تھے۔
قاصد رسید نامہ رسید و خبر رسید |
|
قاصد پہنچ گیا خط پہنچ گیا اور خبر بھی پہنچ گئی |
|
اُسی وقت خاکِ پا کو پانی میں حل کر کے نوش فرمایا اور اپنے شیخِ کامل سے محبت کامل اور عقیدے کی صحت و پختگی کے باعث اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو تین روز میں مکمل شفاعطا فرمادی۔
یہ اللہ والے دیتے ہیں سب کچھ |
|
مگر اِن سے چاہیے لینے کا ڈھب کچھ |
۳۔ ایک مرتبہ خواجہ محمد فیض اللہ تیراہی نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ میرے ایک بچپن کے دوست اور ہم سبق مسمّی ’’حضرت جی‘‘ سے ملاقات کے لیے دل بہت بیقرار ہے جو پشاور شہر کے قرب و جوار میں رہتے ہیں اور ایک عرصہ سے اُن کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ دعا فرمائیں کہ ملاقات ہوجائے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ جنگل میں چل۔ وہاں پہنچ کر آپ مراقب ہوکر بیٹھ گئے اور حضرت خواجہ کو بھی مراقبہ کرنے کا حکم دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد دیکھا کہ دور سے دو آدمی چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے نزدیک آکر بڑے ادب سے ملاقات کی اور وہیں بیٹھ گئے۔ حضرت خواجہ محمدفیض اللہ نے بغور دیکھا تو اُن میں سے ایک اُن کے دوست ’’حضرت جی‘‘ تھے جن کی ملاقات کے لیے وہ مشتاق اور منتظر تھے۔ چنانچہ مل کر بہت خوش ہوئے۔ دریں اثنا حضرت خواجہ محمد عیسیٰ قدس سرہ نے ارشاد کیا کہ اے دیوانے! کیا تو دوسرے شخص کو پہچانتا ہے؟ خواجہ فیض اللہ نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ نے ارشاد کیا کہ یہ حضرتِ خضر علیہ السلام ہیں۔ ان سے ملاقات کرو اور جس چیز کی ضرورت ہو ان سے طلب کرو۔ خواجہ محمد فیض اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ حضور!
’’مجھے جو کچھ ملنا ہے، آپ ہی سے ملنا ہے، اگر خضر علیہ السلام بھی ملے ہیں تو آپ ہی کی کرم نوازی سے ملے ہیں لہذا آپ کے درِ اقدس کو چھوڑ کر کسی اور کے دروازے سے کیوں مانگوں‘‘۔
زمانہ چھوٹ جائے لیکن تیرا در نہ چھوٹے گا |
|
کہ ساقی تیرے میخواروں کو غدّاری نہیں آتی |
آپ کو یہ بات بہت پسند آئی اور خواجہ محمد فیض اللہ کو گلے لگالیا اور سینہ روشن کردیا۔
وفات
آپ کی وفات حسرت آیات ۷؍ ذی الحجہ۱۲۲۰ھ/۲۶؍ فروری ۱۸۰۶ھ کو ہوئی مرقدِ انور موضع ’’چودھواں‘‘ علاقہ گنڈہ پور تحصیل کلاچی ضِلع ڈیرہ اسمٰعیل خاں(صوبہ سرحد) میں زیارتِ گاہ خاص و عام ہے۔
آپ نے اپنے پیچھے تین صاحبزادے یادگار چھوڑے (۱) خواجہ پیر محمد (۲) خواجہ جان محمد (۳) خواجہ علی محمد۔ جب وقتِ وصال قریب آیا تو صاحبزادے خواجہ جان محمد اور خواجہ علی محمد بقیدِ حیات تھے۔ آپ نے دونوں کو وصیّت فرمائی کہ تم میرے بعد خواجہ محمد فیض اللہ سے تجدیدِ بیعت کرنا اور اُس وقت تک اُن کی خدمتِ بابرکت میں رہنا جب تک کہ تصوّف کی تمام منازل طے نہ ہوجائیں۔ چنانچہ حسبِ وصیّت دونوں صاحبزادے حضرت خواجہ محمد فیض اللہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور تجدیدِ بیعت کرکے چھ ماہ تک وہاں قیام فرمارہے اور اکتسابِ فیضِ باطنی کرتے رہے۔
جب مراحلِ تصوّف طے ہوگئے تو دونوں صاحبزادوں کو خرقۂ خلافت دیکھ کر بصد ادب و احترام اور اعزاز و اکرام سے واپس وطن بھیجا گیا۔ بعد ازیں تاحیات تیزئی شریف (تیراہ) میں حاضر ہوتے رہے۔ دونوں ہی صاحبِ باطن، صاحبِ کشف و کرامات اور صاحبِ حال تھے، بے شمار لوگوں نے اُن کے فیض سے استفادہ کیا۔ حضرت خواجہ محمد عیسیٰ قدس سرّہ کی رحلت کے بعد صاحبزادہ جان محمد سجادہ نشین ہُوئے۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)