حضرت مخدوم ابوالقاسم نقشبندی علیہ الرحمۃ
آپ کا اسم گرامی ابوالقاسم اورلقب نورالحق تھا لیکن آپ پورے سندھ میں’’ مخدوم نقشبندی‘‘ کے نام سے مشہور و معروف تھے ابتداءً آپ نے قرآن پاک حفظ کیا پھر علومِ ظاہریہ کی تکمیل کے بعد علومِ باطنیہ کی طرف متوجہ ہوئے شروع میں چند روز مخدوم آدم کے پاس رہے ایک روز مخدوم آدم نے آپ سے فرمایا ’’میاں صاحبزادے آپ میں نہایت عمدہ صلاحیت ہے اگر تم سرہند چلے جاؤ تو وہاں تم اپنی بلند استعداد کے موافق فیوض و برکات سے مستفیض ہوسکوگے‘‘ یہ بات سن کر آپ سرہند تشریف لے گئے اور وہاں حضرت مجدّد الف ثانی کے پوتے خواجہ سیف الدین مجددی سے بیعت ہوئے اور تمام منازلِ سلوک ان کے پاس طے کیں۔
جب آپ سرہند سے خرقہ خلافت حاصل کرکے سندھ تشریف لائے تو سندھ میں حضرت مجدد کے روحانی سلسلے کو عام کرنے میں آپ نے عظیم الشان جدو جہد شروع کی آپ روزانہ مزدوروں، معماروں اور سبزی فروشوں کو طلب فرماتے اور طریقہ نقشبندیہ کی تعلیم دیتے شام کو جب یہ لوگ رخصت ہونے لگتے تو ان کو روزانہ کی اجرت دے دیتے آہستہ آہستہ عوام و خواص آپ کے حلقے میں شامل ہوئے اور لوگ آپس میں کہا کرتے ’’یہ سلسلہ بھی نیا، طریقہ بھی نیا اور طریقہ تعلیم بھی نیا ہے ‘‘جب یہ سلسلہ عام ہوگیا اور لوگوں میں شعور بیدار ہوگیا تو حضرت نے یہ طریقہ عطاء مسترد کردیا۔[۲۲]
آپ کے زمانے میں ٹھٹہ کا گورنر سیف اللہ خان تھا اس گورنر کے ایک دوست کو مخدوم محمد معین ٹھٹھوی ۔ سے بے حد بغض و عناد تھا اور اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح ٹھٹہ کا گورنر مخدوم محمد معین کے خلاف ہوجائے لیکن اس کی ترکیب کامیاب نہیں ہورہی تھی ایک دن ا س نے ٹھٹہ کے گورنر سے ’’چاچگان‘‘نامی مقام کے فوجداری احکام اپنے لیے حاصل کرلیے کیوں کہ اس جگہ مخدوم محمد معین کی جاگیر تھی اور یہ شخص ان کی جاگیر کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا جب مخدوم محمد معین کو اس کا علم ہوا تو آپ اپنے شیخ مخدوم ابوالقاسم نقشبندی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا آپ اس وقت وضوء فرما رہے تھے واقعہ سنتے ہی لوٹا آپ کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا توآپ نے مخدوم محمد معین کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’ مطمئن رہو اس بداندیشن کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا‘‘ چناں چہ جیسے ہی یہ شخص فوجداری احکام لے کر علاقہ’’ چاچگان‘‘ کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں گھوڑا اس طرح بِدکا کہ یہ شخص گھوڑے سے گر پڑا اور اس کا پاؤں رِکاب میں پھنس گیا اور گھوڑا اس کو لے کر دوڑتا رہا اور اسی حال میں اس کا انتقال ہوگیا۔
۷ ؍شعبان ۱۱۳۸ھ میں مخدوم ابوالقاسم اس دنیا سے رحلت فرماگئے آپ کی آخری آرام گاہ مکلی قبرستان میں ہے۔
ایک مرتبہ سلسلہ مجددیہ کے ایک بزرگ شاہ ضیاء الدین سرہندی مکلی قبرستان میں ’’شیخ جہیہ‘‘ کی قبر پر حاضری دینے آئے جو’’ چراغِ مکلی‘‘ کے نام سے معروف تھے تو آپ کو خواہش ہوئی کہ مخدوم ابوالقاسم کے مزار کی زیارت بھی کرنی چاہیے چناں چہ آپ اِن کے مزار پر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا ’’بیشک ’’شیخ جہیہ‘‘ ’’چراغِ مکلی‘‘ ہے لیکن ’’مخدوم ابوالقاسم ‘‘خورشیدِ مکلی ہے۔ (خورشید کے مقابل چراغ کی کیا حیثیت ہے)
آپ کے چند معروف خلفاء کے نام یہ ہیں۔
(۱)مخدوم محمد معین ٹھٹھوی۔ (۲)شیخ محمد ابراہیم نقشبندی۔ (۳)میاں محمد زمان۔ (۴)سلطان شاہ ہندی۔ (۵)مولانا محمد مقیم۔