حضرت مخدوم ابو القاسم نورالحق ٹھٹھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مخدوم ابو القاسم نور الحق بن درس ابراہیم ٹھٹوی سندھ کے مشاہیر علما اور معروف اولیا میں سے ہیں۔ آپ کے پیر و مرشد شاہ سیف الدین قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز نے آپ کو’’ نور الحق‘‘ کا لقب دیا تھا، لیکن آپ پورے سندھ میں ’’حضرت نقشبندی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے آنے سے پہلے سندھ میں صرف سہر وردیہ اور قادریہ سلاسل تھے ، سلسلۂ نقشبندیّہ کا وجود نہ تھا ۔ علومِ ظاہری حاصل کرنے کے بعد آپ نے مخدوم آدم کی رہبری میں منازلِ تصوّف طے کیں ۔ مخدوم آدم نے آپ کی ذات میں جو ہرِ قابل دیکھ کر آپ کو سرہند میں حضرت مجددِ الفِ ثانی کے پوتے حضرت سیف الدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں بھیج دیا، کسبِ فیض کے بعد آپ واپس ٹھٹھہ تشریف لائے تو سندھ کے جلیل القدر علمانے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
مخدوم ابو القاسم جب اپنے مرشد حضرت سیف الدین سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے فرمایا:
’’میاں اب ہمارا تمہارا معاملہ یک ساں ہوگیا اب تم سندھ میں جاکر لوگوں کو راہ ہدایت کی طرف دعوت دو۔ اب سندھ میں تم سے رشدو ہدایت کے سر چشمے پھوٹیں گے وہاں جاؤ اور دین کو حیاتِ نو بخشو۔‘‘
سندھ میں اپنی آمد کے بعد آپ نے بہت سے بھٹکے ہوئے انسانوں کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑا لوگوں کو نیکیوں کی ترغیب دی۔ برائیوں اور بداخلاقیوں سے بچنے کی تلقین کی۔ یہاں تک کہ سندھ کے علاوہ دور دراز سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دامنِ مراد بھر کر جاتے تھے۔
آپ مستجاب الدعوات تھے، جب بھی کوئی دل گرفتہ ، رنجور انسان آپ کی خدمت میں دعا کا طالب ہوتا آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی حاجت روائی کے لیے دعا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ کاملہ سے اسے قبول فرمالیتا تھا۔ خانقاہ کے جس حجرے میں آپ کاقیام تھا وہ ’’حجرۂ حضوری‘‘ کہلاتا تھا ۔ جس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ ایک رات عشا کے بہت دیر بعد آپ کے اس حجرے سے دو آمیوں کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز آتی رہی؛ خانقاہ کے فقرا یہ سمجھے شاید کوئی مہمان آیا ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ حجرے سے باہر تشریف لائے تازہ وضو کیا اور خانقاہ کے ایک درویش سے فرمایا کہ حجرے میں سے ہماری دستار لاؤ۔ جب درویش حجرے میں داخل ہوا تو اسے وہاں دوسرا کوئی آدمی نظر نہ آیا وہ بڑی دیر تک حیران رہا کہ حجرے میں تو دوسرا کوئی آدمی موجود نہیں ہے۔ پھر یہ دوسری آواز اس کس کی تھی کچھ دنوں کے بعد اسی خادم نے خلوت میں آپ سے اس کےمتعلق پوچھا تو فرمایا رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہوئے تھے۔ جب سے اس حجرہ کا نام حجرہ حضوری پڑ گیا۔
مخدوم محمد معین ٹھٹھوی نے آپ کی کرامتوں اور فضائل پر ایک مستقل رسالہ سپرد قلم کیا ہے۔ آپ کی وفات ۷ شعبان/۱۱۳۸ھ کو ہوئی ۔ مکلی میں آپ کے مزار پر قطعۂ تاریخ کندہ ہے۔
بسالِ وصلِ او ہاتف بفرمود
ابو القاسم سراسر نورِ حق بود
تمام سندھ میں سلسلۂ نقشبندیّہ کو آپ ہی کے طفیل فروغ حاصل ہوا ، آپ کو خورشیدِ مکلی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔
(تذکرۂ مشاہیر سندھ، ص ۱۳۳؛ تحفۃالطاہرین، ص۸۰؛ تحفۃ الکرام، جلد ۲،ص ۱۶۵، ۱۷۶،۲۲۹؛ دائرہ معارف اسلامیّہ، ص ۴۷۴)
(تذکرہِ اولیاءِ سندھ)