حضرت مخدوم حمید الدین
حضرت مخدوم حمید الدین (تذکرہ / سوانح)
حضرت مخدوم حمید الدین بن شیخ قطب الدین جمیع کمالات انسانی سے آراستہ اور ظاہری وباطنی کے علوم سے پیراستہ تھے۔ صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ مخدومی شیخ عبدالرحمٰن قدوائی نے تواتر سے فرمایا ہے کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ فرمایاکرتے تھے کہ ہماری ساتویں پشت میں ایک ایسا مرد آئے گا جو ہماری مانند ہوگا۔ چنانچہ بعینہٖ یہی ہوا۔ شیخ قطب الدین کے وصال کے تیسرے روز آپ خرقہ خلافت زیب تن کر کے مسند نشین ہوئے۔ جب لوگوں نے حاضر خدمت ہوکر بیعت کی درخواست کی تو فرمایا کہ دوستو! میں نے ابھی اپنے آپکو نہیں پہنچانا دوسرے کو کس طرح لے سکتا ہوں اس کام کی بنیاد دیانت ہے اور یہ دیانت سے بعید ہے کہ میں اس کام کی جرأت کرروں۔ چنانچہ ریاضت ومجاہد کے میدان میں آپکا پہلا قدم یہ تھا کہ والد ماجد کے تیسرے فاتحہ کے بعد خلوقت خانہ میں داخل ہوئے اور ایک کامل ایک سال تکا باہر قدمنہ رکھا۔ قلت طعام کی وجہ سے آپکے اندر اس قدر باطنی لطافت پیدا ہوچی تھی کہ جب کبھی گوشت یا مرغن غذا پیش کی جاتی تو آپ بے قرار ہوجاتے تھے۔ اور عالم ارواح اور عالم مثال سے اس قدر الفت ہوگئی تھی کہ اہل دنیا کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ نے اپنے جد بزرگوار حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کے قدم بہ قدم سلوک تمام کیا اور عالم بالا کی طرف سےہدایت خلق کےلیے مامور ہوئےلیکن ریاضت اور عبادت و تلاوت کلام پاک جو آپنے روز اول سے اپنے اوپر لازم کیا تھا لبِ گور تک ترک نہ ہوسکا۔ آخر عمر میں آپکو قرآن حکیم حفظ ہوگیا تھا اور اکثر تفسیر زاہدی کا مطالعہ فرمایا کرتے تھے۔
صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں ایک دن اس فقیر نے عرض کیا حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق نے چھ ماہ تک قبر میں خلوقت ختیار فرمائی اور آپکے تمام آبا واجداد بھی جو حضرت شیخ کی مسند پر متمکن ہوئے پہلے چھ ماہ خلوت نشین ہوتے تھے لیکن آپکی خلوت ایک سال تھ ی اس کا کیا سبب ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ حضرات اہل صفا اور میں بہت کیف تھا۔ اس لیے ایک سال تک خلوت نشین رہا۔ آپکا مشرب عشق ومستی اپنے مشائخ عظام کے نقش قدم پر آپکو ذوق سماع بھی بہت تھا۔ اور خوش الحان قوال ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ابتداء میں محافل سماع میں دیوان مغربی، دیوان حافظ اور حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر کا کلام سنا کرتے تھے۔ بعض اوقات آپ وجد کیا کرتے تھے۔ آپ بڑے سخی تھے اور جس قدر فتوحات حاصل ہوتی تھیں اس سے زیادہ خرچ کر ڈالتے تھے۔ کشف قلوب و کشف قبور آپکو بدرجۂ غایت حاصل تھا۔
صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ اس فقیر نے بھی اک خلوقت حضرت اقدس کے زیر سایہ اختیار کی تھی اور کمال لطف و کرم سے آپ ہر روز اس گنہگار کی جائے خلوت میں تشریف لاتے تھے اور عالم ملکوت، جبروت اور لاہوت سے جو کچھ اس فقیر پر منکشف ہوتا تھا اور جس قدر سیر مقامات احوال حاصل ہوتی تھی بندہ تمام حضرت اقدس کے سامنے عرض کرتا تھا آپ اپنے وقت کے قطب تھے اور یہ بات اس فقیر کو حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ نے بطریق باطن بتائی تھی۔ جب یہ گنہگار اس خلوقت سے فارغ ہوا تو حضرت اقدس نے خرقہ خلافت اور خواجگان چشت کی امانت اس فقیر کو عطا فرمائی اور اس فقیر کے حال پر بے جد امجد حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کے باطنی حکم سے دیا ہے اور ہمارے آباواجداد کا سلسلہ تجھ سے روشن ہوگا۔ اور خواجگان چشت کی ولایت اس وقت تمہارے حوالہ کی گئی ہے، تجھے مبارک ہو ا ور اپنے گھر میں ادا ہوسکتا ہے۔ حضرت شیخ حمید الدین قدس سرہٗ کا وصال بادشاہ جہانگیر بن اکبر کے عہد حکومت میں بتاریخ دو جمادی الاول ۱۰۲۲ھ ہو۔ اور ردولی شریف میں اپنے جد امجد کے پہلو میں دفن ہوئے۔ یہ فقیر راقم الحروف (شیخ محمد اکرم مصنف اقتباس الانوار) کہتا ہے کہ کتاب مراۃ الاسرار کے مصنف شیخ عبدالرحمٰن چشتی ساکن انبٹھ کا سلسلۂ بیعت وخلافت حضرت شیخ حمید قطب کے ذریعہ حضرت مخدوم علاؤ الدین صابر قدس سرہٗ تک جا پہنچتا ہے اور آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام عباس ابن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
(قتباس الانوار)