آپ قاضی عبدالمقتدر کے خلفاء میں سے تھے عرفانی اوصاف سے موصوف تھے۔ کشف و کرامت میں معروف تھے۔ صاحبِ معارج الولایت لکھتے ہیں کہ حسام الدین اولیائے تاجدار اولیائے باوقار میں مانے جاتے تھے، آپ نے اپنی خصوصی توجہ سے بے پناہ مخلوق کی راہنمائی فرمائی، آپ کے خلیفہ شیخ بڈھن چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو بچپن سے ہی تربیت دی اور ظاہری و باطنی کمالات تک پہنچا دیا، کہتے ہیں کہ شیخ بڈھن ابھی چھ سال کی عمر میں تھے کہ آپ کے والد ماجد نے انہیں حضرت شیخ حسام الدین کی خدمت میں پیش کردیا، اور عرض کی حضور میرے کئی بچے بچپن میں ہی فوت ہوگئے ہیں، اس بچے کو میں آپ کی نگرانی میں دیتا ہوں تاکہ یہ طبعی عمر تک پہنچے، آپ نے فرمایا ان شاء اللہ یہ بہت بڑا پیر بنے گا، باپ نے پھر کہا اگر اس بچے کو تھوڑا سا علم بھی عطا فرما دیا جائے تو میرا دل خوش ہوجائے گا آپ نے فرمایا یہ عالم متبحر ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ، باپ نے عرض کیا حضور علم معرفت الہیہ کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا، آپ نے فرمایا اللہ کے فضل سے عارف ربانی بھی ہوگا اور عمر بھی لمبی ملے گی چنانچہ حضرت شیخ حسام الدین نے جیسے فرمایا تھا، ویسے ہی ہوا۔
شیخ حسام الدین معارج الولایت کی روایت کے مطابق ۸۰۰ھ میں فوت ہوئے تھے۔
شد بجنت چوزیں جہان فنا
شیخ دین جنتی حسام الدین
گفت سرور بسال رحلت او
شاہ مرد ولی حسام الدین
۸۰۰ھ