حضرت مخدوم شیخ عارف قدس سرہٗ
حضرت مخدوم شیخ عارف قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آں مدرس مسائل عشق و عرفان، محدث حقائق وجد وپیمان، قبلۂ طالبانِ وصل و شہود، فارغ از قید مشیخیت و نمود، نسان حق کا ترجمان معارف، قطب دوران، شیخ المشائخ حضرت م خدوم شیخ عارف قدس سرہٗ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کے فرزند وخلیفۂ جانشین تھے۔ آپ فقر وغنا میں بے ہمتا اور ریاضت مجاہدات میں یکتا تھے۔ آپ نہایت ہی بلند ہمت اور اعلیٰ مقامات رکھتے تھے تربیت مریدین میں آپ یگانہ رازگار تے۔ چنانچہ ایک ہی توجہ سے طالبان حق کو بُعد وحرمان کےمقام سےنکال کر مرتبۂ وصل و عرفان پر پنچادیتے تھے۔ توحید کے اسرار درموز بیان کرنے میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ کشف و کرامات میں آپ معجزاتِ محمدی اور متابعت احکام شریعت میں روش احمدی پر قائم تھے۔ آپ جملہ صفات حنسہ سے آراستہ اور حُسن خلق سے پیراستہ تھے۔ میدان طریقت میں آپکی روشن حُجت اور مقبول ہر فرقہ ہے۔ قطب العالم حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ انوار العیون میں فرماتے ہیں کہ جس طریقہ سے لوگ حضرت شیخ عارف قدس سرہٗ کے پاس آتے تھے وہ یہی سمجھتے تھے کہ آپ ہمارے مشرب پر ہیں اور جو شخص ایک دفوہ حضرت اقدس سے ملاقات کرلیتا تھا یہ کہتا تھا کہ حضرت شیخ عارف کو جس قدر محبت اور شفقت مجھ سے ہے کسی سے نہ ہوگی۔ حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس فقیر نے ساری عمر میں کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ حضرت شیخ عارف کو مجھ سے محبت نہیں یا مجھ پر توجہ نہیں فرماتے اور یہ آپکی ولایت کا کمال ہے۔ سبحان اللہ ! کیا شان ہے اور کیا کمال ہے۔ شہود جمال حمدیت میں غایت استغراق اور فنائے جلالِ احدیت میں غایت اتہلاک (عحویت) کی وجہ سے عالم کثرت کا وجود آپکی نظروں میں ختم ہوچکا تھا۔ یہی وجہ ہے آپ ہر جگہ مشاہدہ حق کرتے تھے، آپکا طریق صلح کل تھا اور خلق خدا سے محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ بلکہ خلق عظیم کے مظہر تھے جو حضرت رسالت پناہ ﷺ کی خصوصیت ہے۔
العلم حجاب الاکبر کے مختلف معانی
حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی نے انوار العیون میں یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت احمد عبدالحق قدس سرہٗ کے اہل خانہ ہمیشہ اس خیال سے معموم رہتے تھے کہ کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا چنانچہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تم خاطر جمع کرو۔ میرے پاس ایک فرزند ہے جو تمہیں دیا جائیگا۔ لیکن فی الحال وہ پختہ نہیں ہوا۔ میں سفر پر جارہا ہوں اُسے پختہ کر کے لاؤنگا اور تمہارے حوالے کرونگا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم اسے کچھ نہ کہنا، اور سب کام اسکی مرضی کے مطابق کرنا۔ اہل خانہ نے یہ بات قبول کرلی اور کچھ عرصے کے بعد حضرت اقدس کے ہاں ایک فرزند پیدا ہوا جنکا اسم گرامی شیخ عارف رکھا گیا۔ وہ عارف ربّانی، محقق حقانی اور شیخ کامل و مکمل تھے۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت شیخ عارف کی تعلیم شروع ہوئی تو حضرت اقدس نے معلم سے فرمایا کہ اپنے علم میں سے بچے کو کوئی چیز تعلیم نہ کرنا کیونکہ العلم حجاب الاکبر (علم سب سے بڑا حجاب ہے) میں یہ علم خود تعلیم کرونگا۔ آپکا کام صرف ادب سکھانا ہے۔ راقرم الحروف کا خیال ی ہ ہے کہ حضرت اقدس نے معلم کو یہ حکم دیا کہ تم بچے کا دوئی اور کثرت وجود جس میں کہ تم خود گرفتار ہو نہ دینا بلکہ میں چونکہ حق تعالیٰ کا مظہر اتم ہوں بلکہ عین ذات حق ہوں اُسے فنافی الشیخ، فنافی الرسول اور فنافی اللہ تمام مراتب طے کراؤنگا۔ اور یہ جو صوفیا نے فرمایا ہے کہ العلم حجاب الاکبر اسکے کئی معانی ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ غیر اور غیریت کا تصور حجاب اکبر ہے خواہ انفسی ہو خواہ آفاقی، دسرے یہ کہ عارف اور معروف کے درمیان عرفان بھی حجاب ہے۔ جسے ہٹانے کی ضروت ہے تاکہ یکتائی کے سوا کچھ باقی نہ رہے تیسرا مطلب یہ ہے کہ برزخ شیخ کو شیخ کا علم بشریت سمجھنا اور انکو رسول اللہﷺ کا غیر تصور کرنا یہی حجاب اکبر ہے۔ جو سرِ راہ بن جاتا ہے۔ جب یہ علم درمیان میں سے اٹھ جاتا ہے اور بشریت شیخ نظر سے گم ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اسکو رسول بلکہ خدا سمجھتا ہے یہی حجاب اکبر سے نجات ہے۔ اسکا اور مطلب یہ ہے کہ علم ظاہر جسے علماء حاصل کرتےہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں حجاب اکبر اور راہ حق میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ معاصی یعنی گناہوں کے پردے حجاب اصغر کہلاتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ سالک انکو برا سمجھتا ہے اور جو چیز بری اور مکروہ ہے اسکا ترک کرنا آسان ہوتا ہے لیکن علم چونکہ بہتر اور شریف تر چیز ہے اسکا ترک کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس لیے وہ حجاب اکبر ہے اور اُسے ترک کیے بغیر وصال حق میسر نہیں آتا۔ اس قول کے دیگر مطالب بھی ہیں جنکی اس مختصر سی کتاب میں گنجائش نہیں ہے۔
شادی مبارک بادی
انوار العیون میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک دن حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا کہ اس فقیر نے بارگاہ حق تعالیٰ میں بہت گستاخی کی ہے کہ چند مرتبہ میرا بلاوا آیا ہے لیکن میں نے ہمیشہ یہی جواب دیا ہے کہ جب تک اپنے بیٹے کی خوشی نہیں دیکھ لونگا ن ہیں آؤنگا لہٰذا اے کہوری کی والدہ جلد کرو اور اسی شادی کا انتظام کرلو۔ یاد رہے کہ حضرت اقدس کے فرزند کا نام عارف تھا لیکن پیار کی وجہ سے آپ انکو کہوری کہا کرتے تے چنانچہ آپ نے سید موسیٰ کے خلیفہ شیخ نور الدین کے خسر قاضی شمس تک پہنچی تو چونکہ وہ بڑے آدمی تھے انہوں نے قبول نہ کیا اور کہلا ب یھیجا کہ ہمیں درویشوں سے کیا منابت خصوصاً ایسا درویش جسکے ایک رخسار پر آتش ہے اور دوسرے پر آب (شاید اس سے مُراد حضرت شیخ کی صفت جلال وجمال ہے یا غربت وتونگری) جب حضرت شیخ کو فراست باطنی سے معلوم ہوا کہ قاضی شمس کو شادی سے انکار ہے تو یہاں آنا پسند نہیں کرتا آپکی غیرت جوش میں آئی اور ایک نظر جلال قاضی شمس کی طرف ڈالی۔ نگاہ جلال پڑتے ہی قاضی شمس کے پیٹ سے خون جاری ہوگیا۔ اور لوگ انکو اٹھاکر حضرت اقدس کی خدمت میں لے آے۔ حضرت اقدسنے شیخ بختیار کے مشورہ کرنے کے بعد اتنی مہلت عطا فرمائی کہ شادی ہوجاے۔ غرضیکہ شیخ نور الدین نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کر کے اپنی بیٹی کی نسبت حضرت شیخ عارف سے کردی۔ اور چند روز کی مہلت طلب کی تاکہ سامان مہیا کریں۔ انہوں نے مہلت طلبی کی صورت یہ بتائی کہ چند لڑکیوں کو بن سنوار کر حضرت شیخ کی خدمت میں روانہ کر کے یہ کہلا بھیجا کہ اگر چند روز کی فرصت مل جائے تو ہم لوگ سرور بجالیں گی اور خوشی کرلیں گی۔ حضرت اقدس نے ازراہِ کرم انکی درخواست قبول کر لی اور چھ ماہ کی مہلد دیدی چنانچہ قاری شمس کو بھی بیماری سے صحت حاصل ہوگئی لیکن جب شادی ہوگئی تو اسے دوبارہ خون جاری ہوگیا۔ انکے رشتہ دار دوبارہ انکو حضرت اقدس کی خدمت میں آئے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ تیر نشانہ پر بیٹھ چکا ہے اور اسکا کام تمام ہوچکا ہے۔ چنانچہ چند ایام کے بعد قاضی شمس کا انتقال ہوگیا۔
حضرت شیخ عارف کے گھر میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا پیدا ہوا۔ بیٹے کا اسم گرامی شیخ محمد رکھا گیا۔بڑی بیٹی کا عقد نکاح ایک شریف سید زادے سے ہوا دوسری بیٹی کا عقد نکاح حضرت شیخ احمد عبدالھق کی روحانیت کی طرف سے بشارت کے مطابق حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ سے ہوا۔ جسکا مفصل حال اپنی جگہ پر آرہا ہے۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ احمد عبدالھق قدس سرہٗ نے اپنے بیٹے شیخ عارف کی تربیت کمال شفقت سے فرمائی اور مرتبۂ تکمیل وارشاد تک پہنچادیا نیز آپکو اسم اعظم بھی تعلیم کیا جو سینہ مشائخ عظام سے آپکو پہنچا تھا۔ آپ کے وصال کے بعد حضرت شیخ کی مسند پر متمکن ہوئے اور ایک جہان نے آپ سے فیض حاصل کیا۔ آپ نے پچاس سال مسندِ خلافت پر بیٹھ کر حق سجادگی ادا کیا اور مشائخ کی امانت اپنے بیٹے شیخ محمد کو سپرد کر کے پردہ پوشی کرلی۔ لیکن آپکے وصال کا سن نظر سے نہیں گذرا۔ آپکے کرامات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس مختصر کتاب میں انکی گنجائش نہیں ہے لیکن آپکی ان کرامات کی بنا پر بزرگی بیان کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ مشائخ عظام کے نزدیک کشف و کرامات مردود ہیں۔ انکے نزدیک جو چیز مقبول ہے وہ ہےعشق اور استقامت یعنی بقا باللہ۔ اور یہی وہ چیز ہے جو آپکے سلسلۂ عالیہ کا خاصہ ہے۔ آپکے کمالات کی حقیقت تک کون پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ آپکے کمالات حدِ عقل و فہم سے باہر ہیں۔ آپ کے کمالات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ حضرت قطب العالم شاہ عبدالقدوس گنگوہی جیسے شاہباز آپکے حسن تربیت سے وجود میں آئے۔ ایسے شاہباز کہ جنکا ٹھکانہ لی مع اللہ سے کمن ہ تھا۔ آپکی ولایت کی شہرت مشرق سے مغرب تک پھیل گئی اس سے زیادہ کیا کرامت ہوسکتی ہے نیز حضرت شیخ پیار ابھی حضرت شیخ عارف کے خلیفہ تھے۔ اگر چہ آپ بیعت حضرت شیخ احمد عبدالحق سے تھی۔ آپکا مزار حضرت اقدس کے روضہ کے ساتھ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کو بھی شیخ پیار کی صحبت ملی ہے چنانچہ حضرت شیخ رکن الدین ابن شاہ عبدالقدوس گنوہی لطائف قدوسیہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ جب جذبۂ باطن اور غلبۂ عشق کی وجہ سے ظاہری تعلیم ترک کر کے اپنے آباؤ اجدائی وطن ردولی شریف سے باہر آئے تو ایک بزرگ کے سامنے آئے اور پوچھا کہ کہاں جارہے ہو۔ آپ نے جواب دیا کہ طلبِ خدا میں جارہا ہوں۔ بزرگ نے فرمایا حضرت شیخ احمد عبدالحق کے در پر جاؤ۔ تمہیں خدا اسی جگہ ملیگا۔ چنانچہ آپ واپس ہوکر حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی خانقاہ میں آئے اور دیکھا کہ شیخ پیارا جو حضرت شیخ کے فرزند حضرت شیخ عارف کے خادم تھے وہاں بیٹھے حضرت مسعود بک کا دیوان پڑھ رہےہیں۔ انہوں نے جب حضرت اقدس کو دیکھا تو دیوان بند کردیا۔ کیونکہ آپ کے سامنے مسعود بک کا دیوان پڑھنا مناسب نہ سمجھا۔ اس وجہ سے کہ آپ کے ابا واجداد علماء شرع اور مفتئ وقت تھے۔ حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی نے روشن ضمیری سے معلوم کر کے فرمایا کہ میں اسی توحید کا طالب بن کر آیا ہوں۔ مجھ سے کیوں چھپاتےہو۔ جب شیخ پیارا کو حقیت حال معلوم ہوگئی تو آپکے ساتھ مراسم قائم کرلیے اور دونوں بزرگوں کے درمیان صجتہائے محرمانہ ہونے لگیں۔ لیکن حضرت شاہ عبدالقدوس کی باطنی تربیت حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی روحانیت سے ہوئی اگر چہ زندگی میں ظاہری صحبت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ لیکن باطنی طور پر بہت فیض حاصل کیا۔ یہاں تک کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق کی روحانیت آپکے سامنے ہر وقت ظاہر رہتی تھی۔ اور تربیت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ آپکو حضرت شیخ احمد عبدالحق سے اس قدر قوی تعلق پیدا ہوگیا تھا کہ آپ لکھتے ہیں کہ ویرانوں ، بیانوں اور قبرستانوں میں جب میں تن تنہا ہوتا تھا تو تہجد کے وقت حضرت شیخ احمد عبدالھق کی روحانیت حاضر ہوکر بلند آواز سے حق حق حق کہہ کر مجھے بیدار کرتی تھی اور مجھ سے نماز تہجد کبھی قضا نہیں ہوتی تھی۔ بیشک السعید من سعد فی بطن امہ (سعید وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں سعید ہو۔)
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
(اقتباس الانوار)