اپنے وقت کے امامِ شریعت، مقتدائے طریقت اور عارفِ حقیقت تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی کی تعلیم اپنے والدِ ماجد سے پائی تھی۔ جامع علوم و فنون تھے۔ نیز علومِ منقولات و معقولات میں بڑی دسترس حاصل تھی۔ ہندوستان کے مشائخ ِ کبار سے تھے۔ سیکڑوں مشرکین اور فاسق و فاجر آپ کے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور تائب ہوکر راہِ ہدایت پر آئے۔ حضرت غوث الاعظم کے ساتھ نسبت خاص تھی۔ حضرت غوثیہ ہی سے عبدالقادر ثانی کا خطاب بعالمِ باطن پایا تھا۔ صاحب اخبار الاخیار لکھتے ہیں: آپ عفوانِ شباب میں بڑی پُر تکلّف زندگی بسر کرتے تھے۔ سماع کی طرف بڑا التفات تھا۔ سفر میں بھی یہی کیفیت تھی۔ سازو سامان کے کئی اونٹ ہمرا ہوتے تھے۔ مگر سجادہ نشین ہوتے ہی ان تمام تکلفات سے کلی اجتناب اختیار کرلیا۔ طالبانِ سماع کو زجرو توبیخ کرتے تھے۔ اگر کسی موقع پر بطریق شاذ سماع سننے کا اتفاق ہوجاتا تھا تو اس قدر گریہ و زاری کر تے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ اسی ذوق و شوق میں روح ابھی پرواز کرجائے گی۔
ایک روز بیابانِ اوچ میں شکار کر رہے تھے کہ ایک تیتر عجیب و غریب آواز سے نالہ و فریاد کر رہا تھا، اس وقت ایک درویش اس طرف سے گزرا کہنے لگا سبحان اللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ نوجوان بھی محبتِ حق میں اس تیتر کی طرح نالہ و فریاد کرے گا۔ اس درویش کی یہ بات آپ کے دل میں تیر کی طرح اُتر گئی۔ اُسی وقت ترکِ علائق کرکے دنیا اہل دنیا سے فارغ ہوگئے اور یہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ایک روز آپ کے پدرِ بزرگوار نے مخمل کے کچھ ٹکڑے آپ کے پاس بھیجے کہ انھیں خرقہ و پوستین کے ابرہ کے لیے استعمال کیجیے۔ فرمایا کہ مخمل کے ان ٹکڑوں سے شکاری کتّوں کے لیے جُل بنائے جائیں۔ آپ کے والد ماجد نے جب یہ سنا تو اپنے پاس بُلا کر اظہارِ ناراضی فرمایا۔ اسی روز رات کو حضرت غوث الاعظم کو خواب میں دیکھا۔ فرماتے ہیں کہ عبدالقادر میرا فرزند ہے۔ اس کی ظاہری و باطنی تربیت میرے ذمّے ہے۔ آپ کو اس کے ساتھ کوئی کام نہیں۔ دوسرے فرزندوں کی تربیت کیجیے۔ روایت ہے جب والد ماجد کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہوئے تو سلاطین و امرا کی صحبت کو کلی طور پر ترک کردیا حالانکہ آپ کے دوسرے بھائی شاہی دربار سے وابستہ تھے۔ انھوں نے کبھی تعلقات منقطع نہیں کیے تھے۔ آپ کے اس استغنا پر سکندر لودھی سے کچھ تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ اس نے چاہا کہ اِن کے بجائے سجادہ نشین ان کے کسی دوسرے بھائی کو کر دیا جائے۔ آپ کو بھی اس کی اطلاع ہوگئی اور ابھی یہ تجویز عمل میں نہیں آئی تھی کہ آپ نے تمام فرامینِ جاگیر جو متعلق بہ خانقاہ تھے بادشاہ کو دہلی بھیج دئیے اور لکھ بھیجا کہ ہم کو نہ بادشاہی جاگیر کی ضرورت ہے اور نہ سجادہ نشینی کی۔ آپ جس کو چاہیں سجادہ نشین بنادیں۔بادشاہ نے بہ نظرِ مصالحت کئی مرتبہ آپ کو تشریف لانے کی دعوت دی مگر آپ نہیں گئے۔ ایک مرتبہ یہ شعر لکھ کر بھیجا ؎
بہ ہیچ باب ازیں باب روئے گشتن نیست |
|
ہر آنچہ برسرِ ما می رود مبارک باد |
|
اس کے بعد تمام اخراجات توکل اور خزانۂ غیبی سے چلتے رہے۔
روایت ہے: ایک دفعہ نمازِ صبح ادا کرنے کے لیے بیدار ہوئے، وضو کیا اور اہلِ خانہ کو آواز دی بیدار ہوجاؤ اور آکر سعادتِ کونین حاصل کرو لیکن اہل خانہ کے پہنچتے پہنچتے یہ دولت ختم ہوگئی۔ جب بعض افرادِ خانہ حاضر ہوئے تو فرمایا کہ ابھی ابھی حضور سرورِ کائناتﷺ نے بحالتِ بیداری اپنے جمالِ کمال سے مشرف فرمایا ہے۔ میں نے چاہا تمہیں بھی یہ دولتِ دیدار نصیب ہو مگر افسوس تم لوگوں نے آتے آتے دیر کردی اور اس متاع بے بہا سے محروم رہ گئے۔
روایت ہے: ایک خوش آواز قوال حاضرِ خدمت ہوا کہ قوالی کرے۔ فرمایا: مجھے اس چیز کی حاجت نہیں ہے۔ میں تمہارا تزکیۂ قلب اور تصفیۂ باطن چاہتا ہُوں۔ اُٹھو، توبہ کرو۔ اپنا ساز توڑ ڈالو، سرمنڈواؤ اور درویش بن جاؤ مگر قوال کو یہ نعمت حاصل کرنے کی توفیق نہ ہوئی، محروم رہا۔ ایک اور شخص جو اس وقت حاضرِ خدمت تھا، آپ کی اس نصیحت سے بہت متاثر ہوا۔ اسی وقت مجلس سے تائب ہوکر اٹھا، سرمنڈوایا، مال و دولت کو راہِ خدا میں لٹادیا اور حاضر ہوکر حضور کے روبرو بیٹھ گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گریہ زاری کرنی شروع کردی۔ پوچھا کیا ہوا۔ عرض کیا: حضرت دیکھتا ہوں کہ گجرات میں میرا بھائی وفات پاگیا ہے اور اس کا جنازہ گورستان لے جارہے ہیں۔ حق تعالیٰ نے آپ ہی کی ذات کے فیض سے یہ کشف اسے عطا فرمایا تھا۔
روایت ہے: ایک دفعہ ملتان میں وبائے ہیضہ پھوٹ پڑی۔ آپ جہاں وضو فرمایا کرتے تھے وہاں سبزہ اُگ آیا تھا۔ لوگ وہ سبزہ طاعون والے کو کھلاتے، اسے بحکمِ ایزوی شفا ہوجاتی۔ جب وہ سبزہ ختم ہوگیا تو لوگوں نے اس جگہ کی مٹی بیماروں کو دینی شروع کی۔ حق تعالیٰ نے اس مٹی میں بھی وُہ خاصیّت پیدا کردی کہ اس سے ہر مرض والے شفا ہوجاتی۔
روایت ہے: ایک مرتبہ ملتان اور اوچ میں لوگوں کو دردِ پہلو کا مرض لاحق ہوگیا۔ اطبّا اس مرض کے علاج سے عاجز آگئے۔ ایک رات آپ کے ایک مرید غیاث الدین نے حضور اکرمﷺ کو خواب میں دیکھا کہ حضورِ اقدسﷺ نے اسے لکڑی کا ایک ٹکڑا عطا کرکے فرمایا ہے کہ لکڑی کے اس ٹکڑے کو میرے فرزند عبدالقادر کو دیدو اور کہو کہ ہر مرض پر لکڑی کا یہ ٹکڑا رکھ کر دس (۱۰) بار سورۂاخلاص پڑھ کر دم کردیا کرو، اللہ تعالیٰ ہر مرض سے شفا دے گا۔
آپ کی ولادت ۸۶۲ھ میں اور وفات ۹۴۰ھ میں ہوئی۔ مزار اوچ میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
عبد قادر ولیِ لاثانی |
|
شیخِ ذی جاہ سیدِ معصوم |