حضرت ملک زین الدین اور وزیرالدین
حضرت ملک زین الدین اور وزیرالدین (تذکرہ / سوانح)
یہ دونوں بھائی شریف خصلت اورصالح تھے ان کے باپ دادا بطور وراثت بادشاہان دہلی کے ملازم تھے ان کے اخلاق کریمہ اور اوصاف حمیدہ لکھنے کے لیے دفاتر درکار ہیں، سلطان سکندر کے چچا زاد بھائی سے کچھ کدورت سی پیدا ہوئی اس نے زمانہ سازی اور برادرانہ تعلق کی بنا پر ظاہر نہیں فرمایا، بارہ ہزار سوار فوج اور حکومت و گورنری وغیرہ انہی کے تفویض میں رہنے دی البتہ ان کے وکیل ملک زین الدین کو خود خفیہ طور سے کہا اور اپنے ہاتھ سے ایک حکم نامہ لکھا کہ خان جہاں کے مال و دولت پر قبضہ کرکے جس طرح چاہو خرچ کرو لیکن خان جہاں کو بالکل خبر نہ ہو اور یہ بھی حکم لکھ بھیجا کہ وکیل زین الدین سے حساب لیا گیا ہے کسی کو اس سے تعرض کا حق نہیں ہے جوکچھ اس سعادت مند کے اختیار میں تھا صدقات و میراث وغیرہ سب کو نیک مقاصد میں صرف کیا کرتے تھے۔
اکثر و بیشتر علما و صلحا آپ کو دوست رکھتے تھے اور آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، وزیرالدین آپ کے چھوٹے بھائی نے حکومت کی کوئی ملازمت نہیں کی بلکہ اپنے بڑے بھائی کی کفالت میں رہے اور ساری عمر تجرد کی حالت میں بسرکی، اکثر و بیشتر زیارتِ قبورکے لیے جاتے تھے۔
ملک زین الدین نے دہلی اور اس کے اطراف کے مقبروں اور زیارت گاہوں کی نگرانی اپنے ہاتھ میں لی اور تمام عالموں، صوفیوں اور صالح لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک برقرار رکھ کر ان کو ہمیشہ خوش رکھا۔
سلطان سکندر کا دَورخیر و فلاح کا دَور تھا آپ کو علما اور صلحا اور شریف لوگوں سے لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ اس دور میں دُور دراز کے علماء و صلحاء عرب وعجم سے آکر یہاں سکونت پذیر ہوگئے۔ جتنے بزرگوں کا یہاں ذکر آتا ہے اکثر و بیشتر اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، سلطان سکندر کی تعریفیں حد تقریر و تحریر سے خارج ہے آپ کی فراست بلکہ کرامت سے متعلق واقعات نقل کیے گئے ہیں۔
گر ایں جملہ راسعدی املا کندا
مگر دفترے دیگر انشا کند
اگر سعدی یہ سب کچھ لکھتے تو ایک بڑا دفتر ہوجاتا۔
سلطان سکندر 894ھ میں تخت شاہی پر جلوہ افروز ہوئے اور 923ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے اور (39) سال حکومت کی۔
نقل ہے کہ شیخ زین الدینُ ہمیشہ کھڑے ہوکر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے انہوں نے ایک رحل بنائی تھی جس کی اونچائی ان کے سینے تک تھی اس پر قرآن کریم رکھ کر تلاوت کیا کرتے تھے، ساتھ ہی چھت میں ایک رسی لٹکاکر اس کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا کرتے تھے تاکہ اگر نیند آئے تو رسی ان کا گلہ دبائے اور اس سے وہ سونے نہ پائیں۔
ملک زینُ الدین وکیل کے تمام ملازم و نوکر آدھی رات کے بعد تہجد کے لیے اُٹھتے تھے اس وقت سے لے کر نماز چاشت تک اس کے محل میں کوئی شخص اشارہ کے سواکوئی بات زبان سے نہیں کہتا تھا اس لیے کہ تمام لوگ ذکرواذکار میں مشغول ہوتے تھے۔
جمعرات کے دن رات کے وقت چاولوں پر تین تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ کر رِسالتِ ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح پر ایصالِ ثواب کیا کرتے تھے وہ چاول کئی من ہوتے تھے جن جن کی دن کے وقت جمعہ کے روز قبولی پکتی اور غریبوں کی تقسیم کی جاتی تھی۔
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانے کا انداز: یکم ربیع الاول سے بارہ ربیع الاول تک روزانہ ایک ہزار وپے بغرض ایصال ثواب بارگاہ نبوت میں اس طرح خرچ کیا جاتا کہ روزانہ ایک ہزار روپے اس پر اضافہ کرتے رہتے، یعنی یکم کو ایک ہزار، دوسری تاریخ دو ہزار، تیسری تاریخ تین ہزار اور بارہویں ربیع الاول کو بارہ ہزار روپے خرچ کرتے تھے، یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جبکہ ارزانی کا زمانہ تھا۔
ملک زینُ الدین اور وزیرالدین دونوں بھائی ہر بدھ کے دن غسل کرکے ختم قرآن شریف کرایا کرتے تھے اور اللہ سے اپنی شہادت کی دعا مانگتے تھے، چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی، شیخ زین الدین کو ان کے نافرمان غلام نے بوقت سحر دودھ میں زہر ملاکر پلا دیا اور شیخ وزیرالدین سلطان ابراہیم کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے، حوض شمسی کے مغربی جانب آپ کا مزار ہے، آپ کی خانقاہ چبوترہ اور مزار کا محل وقوع پر اثر اور بے نظیر ہے، آپ کا مزار حوض شمسی کی دوسری عمارتوں سے زیادہ مشہور، مُمتاز اور پُررونق ہے، اس وقت بھی آپ کے مقبرہ سے آثارِ رحمت ظاہر ہیں، اللہ آپ پر اور سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار