میر مومن علی مومنین جنیدی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کے حالات شریفہ آپ کےنواسے مولانا سعید احمد انصاری مرحوم نے اپنی تالیف"موجِ صبا"میں شامل کئے ہیں۔ہم وہیں سے مختصر حالات پیش کرتے ہیں۔ دراصل یہ ایک مکتوب ہے جو انہوں نے اپنے ایک عزیز مُنشی نور الحسن صاحب کو لکھا ہے مُلاحظہ فرمائیں:
‘‘آپ کو نا نامیاں تو یاد ہوں گے:یعنی میرے حقیقی نانا میر مومن علی صاحب جنیدی :وہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے اجل خلفاء میں تھے ناگپور کے اتوارہ بازار میں ایک دینی مدرس قائم کیا تھا۔اس کا نام علی گڑھ کے جوڑ پر "مدرسۃ العلوم مسلمانان "تھا۔ یہ سی پی میں پہلا میں پہلا اسلامی اور دینی مدرسہ تھا۔ نانا میاں کٹر سُنی حنفی تھے اور مذہبی صلابت ان کی زندگی سے گزر کر شاعری تک میں سرائیت کر گئی تھی ان کا دیوان شاید آپ نے دیکھا ہوگا مومن تخلص کرتے تھے "تحفۂ مومن" کےنام سے عرصہ ہوا لکھنؤ سے شائع ہوا تھا۔خواجہ قطب الدین کے نامی پریس مین چھپا چند اشعار جو اسوقت زبان قلم پر آرہے ہیں’ پیش کرتا ہوں:
دل جو شیدائے رسول عربی یاں ہوگا یاد ہے خوب مُجھے اتبعو اقول نبی کا مُتنفر جو ہے احکام رسول حق سے
|
چمن خُلد میں مثل گل خنداں ہوگا تابع حکم نبی بندہ رحماں ہوگا دیکھنا حژر میں وہ تابع شیطاں ہوگا
|
اس وقت ان کی صورت آنکھوں کے سامنے ہے۔وہ بُوٹا ساقد ،کلتا ہوا رنگ ، وہ پگڑی وہ جُبا،وہ صدری ،وہ کاندھے پر رومال۔ وہ حج و زیارت کے شرف سے مشرف تھے اور حاقطِ قرآن بھی تھے۔مجالس میلاد میں ان کی خوش آوازی ’جوشِ عقیدت سے بھر پونثر و نظم کی حلاوت کو چار چاند لگاتی تھی ۔
ماخذومراجع: تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت۔