حضرت میر محمد احمد صدیق
حضرت میر محمد احمد صدیق (تذکرہ / سوانح)
حضرت ابوالقاسم شاہ سید میر محمد احمد صدیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
المتلخص بہ قاتل لکھنوی الاجمیری قادری
حضرت مولانا سید محمد احمد صدیق شاہ بن حضرت سید میر یعقوب علی شاہ ، ۱۴ جنوری ۱۸۸۵ء کو لکھنوٗ ( بھارت ) میں تولد ہوئے۔ والدہ ماجدہ نے ہمیشہ آپ کو باوضو ہو کر دودھ پلایا۔ عالم کم سنی میں بچوں میں کھیل کود کے دوران اکثر آپ پر سکوت طاری ہو جاتا اور آپ عالم تفکر کی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ۔ کافر دیر تک دنیا و مافیہا سے بے خبر رہتے ۔ آپ کا نام محمد احمد صدیق ، کنیت ابو القاسم ، تخلص : قاتل ، خطاب ادبی شیف الکلام ، نسب حسنی و حسینی سید، مسلکا اہل سنت و جماعت ، مذہبا حنفی ۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم لکھنوٗ میں حاصل کی۔ بعد ازاں آپ کے والد محترم لکھنوٗ کی سکونت ترک کر کے اجمیر شریف کے محلہ مکیری میں قیام پذیر ہوئے تو آپ نے اجمیر شریف میں حصول علم کادوبارہ آغاز کیا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ کے والد محترم کا تبادلہ ( بسلسلہ ملازمت ریلوے گارڈ ) آبوروڈ ہوگیا۔ ماوٗنٹ ، آبو، راجپوتانہ ہندوستان کا ایک مشہور و معروف پہاڑ ہے۔ موسم گرما میں یہاں امراء ، روساء اور راجے مہاراجہ بغرض سیر و تفریح آیا کرتے ہیں ۔ گویا یہ راجپوتا نہ کا مقام سیر و تفریح ہے۔ یہیں آپ کے والد ماجد کے ایک دوست ڈاکٹر ولایت حسین کا مستقلا قیام تھا۔ ڈاکٹر کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا سب ہی کچھ تھا لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھے ۔ آپ کو دیکھ کر ڈاکٹر آپ کو بے حد چاہنے لگے حتیٰ کہ ایک دن آپ کو آپ کے والد ماجد سے مانگ لیا۔ حضرت سید میر یعقوب علی نے مشیت ایزدی سمجھ کر اپنے لخت جگر کو ان کے حوالے کر دیا۔
ڈاکٹر ولایت حسین نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ ابتدائی طور پر انگریزی اور ڈاکٹر کی تعلیم خود دی۔ بعد ازاں آپ کو بغرض تکمیل علوم بیرون ہندروانہ کردیا۔ جہاں پہلے آپ مصر تشریف لے گئے۔ وہاں دنیائے اسلام کی عظیم دینی درس گاہ جامعۃ الازھر ( قاہرہ ) سے علوم دینیہ پر دسترس حاصل کی اور سند حاصل کر کے یورپ روانہ ہو گئے۔ یورپ میں ڈاکٹریت کی بقیہ تعلیم حاصل کر کے عرصہ دراز بعد وطن عازم سفر ہوئے۔ یوں ان تمام مصارف کی سعادت محترم ڈاکٹر ولایت حسین صاحب کو عطا ہوئی۔
قیام اجمیر:
تما م علوم ظاہری سے فارغ ہو کر آپ نے والد محترم کی طرح اجمیر شریف میں مستقل قیام کو ترجیح دی ۔ ۱۹۰۴ء کو قیصر گنج اجمیر شریف میں ایک کلینک قائم کیا جس سے آپ کا م منشاء خدمت خلق اور اکل حلال کمانا تھا۔ آپ اپنے دواخانے میں غریبوں مسکینوں اور ضرورت مند مریضوں کا علاج شافی فی سبیل اللہ کرتے تھے۔
بیعت و خلافت :
ایک دن اشارہ غیبی پاکر نصیر آباد ( ضلع اجمیر ) پہنچے اور جناب خدا بخش کی معرفت حضرت قبلہ عالم عبدالشکور قدس سرہالغفور کے دستِ مبارک پر سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ میں بیعت ہوئے۔
آپ کو سید ہونے کے ناطے وراثتًا برکات سیادت حاصل تھیں ۔ حضرت مرشد کریم کے فیوض و برکات اور توجہ خصوصی سے آپ نے ریاضات و مجاہدات میں کافی محنت شاقہ کی اور دو سال کے قلیل عرصہ میں آپ کو وہ کمال حاصل ہوگیا کہ جو دوسرے برسہابرس میں بھی حاصل نہ کر سکے تھے۔ ایک روز حضرت نے اپنے دست فیض اثر سے کلاہ مبارک آپ کے فرق عالی پر رکھ کر سر بلند فرمایا۔ تین مرتبہ آپ کی پشت پر دست مبارک سے تھپکی دی اور ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ کو اپنے بزرگان سلسلہ عالیہ رحمھم اللہ تعالیٰ اور اپنی جانب سے بیعت کرنے کی اجازت دی اور آپ کو خلافت سے سر فراز فرمایا۔
اب کیا تباوٗں میں ، مجھے مرشد نے کیا دیا
دل میں جو تھی امید کچھ اس سے سوا دیا
قاتل اسی کو کہتے ہیں ذرہ نوازیاں
دم بھر میں اک مرید کو مرشد بنایا
شادی و اولاد :
۱۹۰۴ء کو ہی آپ کی پہلی شادی آپ کے حقیقی ماموں الحاج سید علاء الدین قلعی گر کی دختر نیک اختر سیدہ سعیدہ خاتون سے ہوئی۔ ان سے ایک بیٹا سید شہید احمد تولد ہوئے۔ بیٹے کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد سیدہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں ۔ بیٹے صاحب بھی نوجوانی میں ۱۸ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئے۔ لاہور کا سکھ خاندان آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوا۔ اسی خاندان کی ایک صاحبزادی جن کا اسلامی نام رحمت بی بی تھا۔ پہلی شریک حیات کے وصال کے بعد آپ کے عقد میں آئیں ۔ ان کے بطن سے کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی۔
۱۹۲۵ء کو حضرت مولانا جمال الدین رامپوری کی صاحبزادی تصویر النساء خاتون سے تیسری شادی ہوئی۔ اس کے بطن سے جواولاد ہوئی اس کی تفصیل اس طرح ہے:
۱۔ سید محمد رضا ء الانبیاء شاہ رومی
۲۔ سیدہ جمیلہ خاتون
۳۔ سیدہ حسینہ خاتون
۴۔ سید ضیاء الانبیاء شاہ
۵۔ سیدہ رضیہ خاتون
۶۔ سیدہ نسیمہ خاتون
۷۔ سیدہ حبیبہ خاتون
۸۔ سیدہ شکیلہ خاتون
۹۔ سیدہ ساجدہ خاتون
۱۰۔ سید ثناء الانبیاء شاہ
آپ کی تین صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادے اجمیر شریف میں ہی داغ مفارقت دے گئے تھے ۔ سید ہ حبیبہ خاتون چھ سال کی عمر میں سیدہ جمیلہ خاتون ۱۶ سال کی عمر میں سیدہ حسینہ خاتون ۱۳ ماہ کی عمر میں اور صاحبزادہ ضیاء الانبیاء ۱۸ ماہ کی عمر میں انتقال کر گئے۔ بمبئی میں قیام کے دوران دو صاحبزادیوں سیدہ نسیمہ خاتون اور سیدہ شکیلہ خاتون نے بالترتیب ۷ سال اور ۱۶ ماہ کی عمر میں انتقال کیا اور یہاں کراچی میں سیدہ رضیہ خاتون ۱۸ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئیں ۔ آپ میوہ شاہ قبرستان میں مدفون ہیں ۔
آپ کے دو صاحبزاد ے سید میر رضا الانبیاء شاہ قادری المعروف پیررومی (۲) سید میر ثناء الانبیاء شاہ اور صاحبزادی سیدہ ساجدہ خاتون سیدا سد علی کے حبالہٗ عقد میں ہیں ۔ تینوں صاحب اولاد ہیں اور اپنے سلسلہ کی ترویج میں مصروف رہے۔
آپ کی چوتھی شادی ۱۹۳۶ء کو جناب ماسٹر ابو الحسن خان صاحب کی صاحبزادی زہرہ خانم سے احمد آباد ( بھارت ) میں ہوئی۔ اس کے بطن سے سید نثار الانبیاء شاہ بمبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے سوا ان کے بطن سے اور کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
شاعری :
آپ جن دنوں اجمیر شریف میں ہسپتال کے انتظام و انصرام میں مصروف تھے۔ اس زمانے میں ہندوستان کے مشہور و معروف شاعر حضرت سیماب اکبر آبادی کی شاگردی کو اپنی شاعری کیلئے ضروری سمجھا۔
آپ ایک شاعر باکمال اور استاد سخن کی حیثیت سے نہ صرف اجمیر شریف بلکہ ہندوستان کی ادبی محافل اور حلقوں میں شہرت خصوصی رکھتے تھے۔ اور محفل مشاعرہ میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ شاعر ی کا نمونہ پیش خدمت ہے:
شاہ دنیا و دیں محی الدین
مہر و ماہ مبین محی الدین
آپ سن لیں کہیں محی الدین
داستان حزیں محی الدین
اپنے جد کے امین محی الدین
محی الدین مبین محی الدین
اب میں فریاد بھی کروں کس سے
کوئی سنتا نہیں محی الدین
آج آسان میری مشکل ہو
کوئی مشکل نہیں محی الدین
اک بھکاری پکارتا ہے تمہیں
کیا سنا ہی نہیں محی الدین
اس زمین پر اس آسماں کے تلے
تم سا قادر نہیں محی الدین
میرے ایماں میں تازگی دیدو
تاجدار یقیں محی الدین
کون ہے دستگیر قاتل کا
بس تمہیں ہو تمہیں محی الدین
(بحوالہ عین القادر ۱۹۹۰ئ)
تصنیف و تالیف :
آپ کے کلام کا بیشتر ذخیرہ اجمیرشریف میں ہی ضائع ہو گیا۔ آپ کی شعری تصانیف میں ایک ’’نظم دل پذیر ‘‘ جو سید نا غوث الاعظم جیلانی قدس سرہ کی ایک کرامت پر مبنی ہے۔ کتابی صورت میں پہلے اجمیر شریف اور بار دیگر بمبئی سے شائع ہو چکی ہے۔
۱۔ روضۃ الرضا ( مطبوعہ ملتان )
۲۔ گلہائے عقیدت
۳۔ کیف بغداد
۴۔ مرقع قاتل
تبلیغ :
دربار شیخ سے خلافت کا منصب جلیل عطا ہونے کے بعد آپ نے اپنی تمام زندگی تبلیغ سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ کیلئے وقف کر دی اور تبلیغ سلسلہ عالیہ کے فرض کی ادائیگی میں ہمہ تن کوشش فرماتے رہے۔ اجمیر شریف مع گرد و نواح میں کمال سر گرمی سے سلسلہ عالیہ کی اشاعت فرمائی، رفتہ رفتہ پورے ہندوستان میں آپ کا سلسلہ پھیلا ، مزید برآں غیر ممالک میں بھی سلسلہ عالیہ کی شاخیں قائم ہوئیں ۔
خلفاء :
آپ کے سوانح نگار نے آپ کے خلفاء کے ضمن میں ۴۶ اسماء گرامی درج کئے ہیں ۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
٭ صاحبزادہ سید رضا ء الانبیاء شاہ پیررومی کراچی
٭ حضرت ابو الرضا محمد عمر رضا روحی قاتلی متوفی ۱۹۷۷ء حیدرآباد سندھ
پاکستان آمد:
قیام پاکستان کے بعد آپ پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل قیام فرمایا۔
وصال :
حضرت سید محمد احمد صدیق شاہ قاتل نے ۲۸ ، صفر ۱۳۷۰ھ بمطابق ۹، دسمبر ۱۹۵۰ء بروز ہفتہ بوقت ۹ بجکر ۵۵ منٹ پر ۶۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ مولانا عبدالحامد بدایونی قادری نے نماز جنازہ کے فرائض انجام دیئے۔ حضرت قبلہ عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قبہ میں ( جامع کلاتھ مارکیٹ ایم اے جناح روڈ کراچی میں ) تدفین ہوئی، جہاں آ پ کی مزار مرجع خلائق ہے اور سالانہ عرس نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
[مرقع قاتل ، مرتبہ و سوانح گار مولانا شمس بریلوی مطبوعہ کراچی ندارد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے ضروری صفحات کی نقل پاکستان ہاوٗ س نارتھ ناظم آباد کراچی سے محترم الحاج شمیم الدین صاحب نے مرحمت فرمائی جس سے فقیر نے مضمون ترتیب دیا]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)