حضرت میر سید اشرف سمنانی
حضرت میر سید اشرف سمنانی (تذکرہ / سوانح)
لوگ آپ کو سید جہانگیر کہا کرتے تھے، آپ صاحبِ کرامت و تصرف اور بڑے کامل ولی اللہ تھے، آپ سید علی ہمدانی کے رفیق سفر رہے تھے بالاخر ہندوستان آکر شیخ علاؤالدین کے مرید ہوئے، مُرید ہونے سے قبل ہی آپ کشف و کرامت کے مقامات علیا حاصل کرچکے تھے، حقائق اور توحید کے بارے میں بڑی بلند باتیں بیان فرمایا کرتے تھے، آپ کے مکتوبات بڑی عجیب و غریب تحقیقات کے مجموعے ہیں، آپ قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے معاصر تھے، قاضی صاحب نے آپ سے فرعون کے ایمان کے متعلق جس کا فصوص الحکم میں بھی اشارہ کیا ہے، تفصیلی گفتگو کرکے حقائق معلوم کرنے چاہے، چنانچہ آپ نے قاضی صاحب کو اس سلسلہ میں ایک خط لکھا آپ کا مزار جونپور کے ایک گاؤں کچونچہ میں ہے، آپ کی قبر بڑا فیض کا مَقام ہے، اور ایک حوض کے درمیان میں ہے، اس علاقہ میں جِنات کو دور کرنے کے لیے آپ کا نام لے دینا بڑا تیربا ہدف نسخہ ہے، آپ کے ملفوظات بھی آپ کے ایک مرید نے جمع کیے ہیں۔
مکتوب 22
برادرِ عزیز جامع العلوم قاضی شہاب الدین!آپ کے دل کو اللہ تعالیٰ نور یقین سے منور فرمائے، درویشانہ دعا اور فقیرانہ مدحت و ثناء فقیر اشرف سے قبول فرمائیں، آپ کا مکتوب جس میں بہت سی باتوں کے ساتھ ساتھ فرعون کے بارے میں آپ نے استفسار کیا ہے ملا، یہ وہی استفسار ہے جس کا جواب فصوص الحکم میں دیا گیا ہے، سو فصوص الحکم میں اس مسئلہ کے متعلق دس مقامات پر دس جوابات دیے گئے ہیں، اصل میں یہ ایسے مشکل ترین مقامات ہیں جس میں شرح کرنے والے اُلجھ گئے، اور اصل بات تک نہیں پہنچ سکے۔
حضرت شیخ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرعون جو پانی میں ڈوبنے اور ہلاکت کے خوف سے ایمان لایا تھا یہ ایمان معتبر نہیں اور اس ایمان کی وجہ سے فرعون کو مومن نہیں کہا جاسکتا، اس لیےایمان تو وہ معتبر ہوتا ہے جو دوزخ کے اہوال اور اخروی نکال کی اطلاع ملنے پر لایا جائے اور فرعون کا ایمان اس طرح کا نہ تھا کیونکہ وہ تو غرق ہونے اور خراب ہوجانے کی وجہ سے ایمان لارہا تھا جیسا کہ قیصری میں ہے کہ فرعون نے جب سمندر میں ایک وسیع اور چوڑا راستہ دیکھا جس سے نبی اسرائیل سمندر کی دوسری جانب چلے گئے تھے تو وہ غرغرہ لگنے سے پہلے اور آخرت کی ان چیزوں کو مشاہدہ کرنے سے پہلے ایمان لایا جن کو عموماً لوگ غرغرہ کی کیفیت میں دیکھتے ہیں اس اعتبار سے فرعون کا ایمان معتدبہ اور صحیح ہوگا کیونکہ وہ غرغرہ سے پہلے ایمان لایا تھا نہ کہ آخرت کے عذاب کو دیکھ کر جیسا کہ ایمان خوف ہوتا ہے، چنانچہ جو کافر قتل سے بچنے کی غرض سے ایمان لائے تو اس کا ایمان بلا اختلاف دُرست ہے۔
فصوص الحکم میں ہے کہ فرعون کی بیوی نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرعون سے کہا کہ وہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، تو فرعون کی بیوی کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تو اس کا کمال مراد ہے اور فرعون کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے اس کا ایماندار ہونا مراد ہے جو اللہ نے اس کو بوقت غرق عطا کیا تھا اور اس کو اللہ نے دنیا سے پاک و صاف کرکے قبض کرلیا اس لیے کہ وہ ایمان لانے کے بعد کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا اور پھر اس کی اپنی قدرت کی ایک نشانی بنادیا تاکہ میری رَحمَت سے کوئی نا امید نہ ہو اور اللہ کی رَحمَت سے تو کافر لوگ ہی نا اُمید ہوتے ہیں، اگر فرعون بھی ان لوگوں سے ہوتا جو اللہ کی رَحمَت سے نا امید ہوتے ہیں (کافر لوگ) تو وہ ہر گز ایمان نہ لاتا، پھر فرعون کی عورت نے فرعون سے کہا تھا کہ یہ تیری اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل مت کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ کیا تو اب ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو گناہوں میں شرابور تھا تو یہ محض عتاب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا، اس سے اس کے ایمان کی نفی ہرگز ثابت نہیں ہوتی، قیامت کے دن گناہگاروں کو دوزخ میں ڈالنے اور دوزخ کو بدترین مقام قرار دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایمان اور دوزخ میں منافات ہو اور فرعون کے کفر پر کوئی صریح نص موجود نہیں اور جن دلائل میں اس کے کفر کا تذکرہ ہے وہ تو اس کے ایمان لانے سے پہلے کے واقعات کو بطور حکایت کے بیان کیا گیا ہے، ایمان کا فائدہ یہ ہے کہ خلودفی النار نہیں ہوگا، البتہ اس نے جتنے مظالم اور معاصی کیے ہیں ان تمام کی اس کو سزا دی جائے گی اور شیخ اس آخری بات کا اِنکار نہیں کرتے (یعنی اس کا کچھ دنوں کے لیے معذب ہونا)اور شیخ ان تمام باتوں میں مامور تھے کیونکہ جو کچھ بھی انہوں نے اس خط میں لکھا ہے وہ تمام کا تمام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ہی سے لکھا ہے اس لیے وہ معذور ہیں جیسا کہ منکر مغرور معذور ہوتا ہے اور شیخ کا یہ فرمانا کہ اللہ نے اس کو اپنی قدرت کی علامت بنادیا یہ اشارہ ہے اللہ کے اس قول کی طرف۔
ترجمہ: آج سے ہم نے تیرے بدن کو محفوظ کردیا یعنی تجھ کو تیرے بدن سمیت کفر کے بعد ایمان لانے کی وجہ سے بچالیا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر مومن اور کافر کو جاننے والا ہے۔
میرے اسلامی بھائی۔ فاضل جلیل! میں اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اور آپ حضرات کی دعا سے صوفیا کا مشرب رکھتا ہوں۔ اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عنایت اور دستگیری کے بغیر کوئی بلند درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔ آپ کو جو کچھ بزرگی حاصل ہے وہ سب اللہ کی مہربانی ہے اور اللہ اپنی عنایت و مہربانی جس پر چاہتا ہے مبذول کرتا ہے۔ تصوف اور عزت والے علم کے بارے میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جاہل اور تصوف و شریعت کے علم سے نا آشنا ہو اس کے لیے خاتمہ بالکفر کا شدید خطرہ۔ اہل علم حضرات پر اللہ کی یہ مہربانی ہے کہ وہ کم از کم اللہ اور رسول کی تصدیق کرتے اور شریعت کے احکام کو مانتے ہیں۔ شرک خفی کے دریا کی متلاطم موجوں سے نکلنے کے لیے تو حید و رسالت کو ماننا ہی بہترین عقیدہ ہے، مشائخ چشت نے جو کچھ فرمایاہے اور جسے میں بتا بھی چکا ہوں اسے تم روز مرہ کا معمول بنا لو اس کے بعد جو کچھ ظاہر ہو وہ ہمیں لکھ بھیجو تاکہ اس کے موافق شیطان کے وساوس سے چھٹکارا دلانے کی کوئی سبیل کی جائے، اور جب بالمشافہ گفتگو ہوگی اس وقت بتلادیا جائے گا، میرے خط پہنچنے سے پہلے شیخ رضی کا مکتوب آپ کو مل جائے گا جو انہوں نے سلطان ابراہیم کو لکھا ہے وہ غالباً اس کا مطالعہ کر چکے ہونگے آپ کے اخلاق عالیہ سے امید ہے کہ اس ضرب المثل کے موافق عمل کرو گے کہ مسلمان کے دل میں خوشیوں کا داخل ہونا سمندر کی مانند ہے اور عبادات قطرہ کی مانند ہیں، اور اس پر بھی عمل کرو گے کہ جس پر اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ حرام کردیتا ہے۔ میں نے اپنی کوشش اور آپ کی رعایت کرنے میں کوئی طریقہ نہ چھوڑا۔
گر برآید کاری از دستِ کسے
بہ کہ در کارش زند صد دست وپا
کار باید کرد از روئے دل
کار او نبود، بود کارِ خدا
اس زمانہ کے درویشوں کے زخمی دل لوگوں کو معلوم ہے کہ جناب والا کو اس فقیر سے والہانہ الفت و محبت ہے اس لیے بھی ضرورت ہے کہ گاہ بگاہ آپ کو بیدار کرتا رہوں تاکہ آپ اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہ کیا کریں۔
اخبار الاخیار