سید ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ معین عبدالقادر الحسین الایرجی کے صاحبزادے تھے۔
آپ بلند مرتبہ بزرگ اور کامل فلسفی تھے علوم عقلی و نقلی رسمی و حقیقی کے فارغ التحصیل تھے تمام علوم کی بے شُمار کُتب مطالعہ کر رکھی تھیں اور ان کی تصحیح بھی فرمائی تھی آپ نے کتابوں کے مشکل ترین مسائل کو اس طرح حل فرمادیا تھا کہ کم علم شخص بھی ان مسائل کو باسانی بغیر استاد کے سمجھ لیا کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے دور میں یکتائے روزگار تھے۔
آپ کے انتقال کے بعد آپ کے کُتب خانہ سے اتنی زیادہ کتابیں برآمد ہوئیں جو ضبط تحریر سے خارج ہیں اور ان میں سے اکثر آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں اور واقعہ یہ ہے کہ آپ کے جس ہم عصر نے آپ سے استفادہ نہیں کیا اور آپ کی علمی قابلیت کا اقرار نہیں کیا وہ بڑا ہی بے انصاف ہے۔
میر سید ابراہیم کا دستور تھا کہ لوگوں کی جہالت، نا انصافی اوربےقدری کی وجہ سے گوشہ نشین ہوکر مطالعہ کُتب اور ان کی تصحیح میں مشغول ہوجاتے تھے، بہت کم لوگوں کو آپ نے پڑھایا اور عام طور پر لوگ آپ سے استفادہ نہ کرسکے، آپ اپنی کتاب بغرض مطالعہ صرف اس کو دیتے جس کو مخلص سمجھتے، اللہ ہی جانے اس میں کیا حکمت تھی۔
شیخ عبدالعزیز اور دوسرے صوفیاء نے آپ سے علوم تصوف حاصل کئے، اس کے علاوہ دیگر مشائخ اور بزرگ حضرات بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ نے جس طرح دوسرے علوم و فنون پڑھے تھے اسی طرح درویشوں کی بابرکت صحبت، سلسلے مشائخ اور ان کے خانوادوں کی نسبت اور ادو ا ذکار وظائف و اشغال، دعوات طریق تربیت و ارشاد کے کارنامے بھی حاصل کئے تھے، سلسلہ قادریہ کی طرف آپ کو زیادہ نسبت تھی اور شیخ بہاؤالدین قادری شطاری کے آپ مریدتھے۔
شیخ بہاؤالدین قادری شطاری نے آپ کی خاطر رسالہ شطاریہ تصنیف کیا ہے کہتے ہیں کہ آپ شیخ نظام الدین کے بلاواسطہ مرید تھے اور انہی سے خرقہ حاصل کیا تھا۔ آپ محفل سماع میں شریک نہیں ہوتے تھے، سنا گیا ہے کہ شیخ رکن الدین بن شیخ عبدالقدوس کہتے ہیں کہ میں ایک دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آج حضرت خواجہ قطب الدین کا عرس ہے اگر آپ مجلس میں شرکت فرمائیں تو مناسب ہوگا، آپ نے جواب میں فرمایاتم چلے جاؤ اور قبر کی زیارت کرو، بعد میں ان کی روحانیت کی طرف متوجہ ہوجائیے اور دیکھئے کہ حضرت خواجہ قطب الدین کیا فرماتے ہیں چنانچہ میں رکن الدین حضرت خواجہ قطب الدین کی قبر پر بیٹھ کر ان کی روحانیت کی طرف متوجہ ہوا، مجلس سماع گرم تھی قوال اور صوفی سب جوش و خروش میں تھے کہ اس وقت خواجہ قطب الدین نے مجھ رکن الدین سے فرمایا کہ ان بدبختوں نے ہمارا دِماغ کھالیا ہے اور ذہن کو پریشان کررکھا ہے۔
چنانچہ قطب صاحب کا یہ حکم سن کر میں سید ابراہیم کے پاس آیا تو انہوں نے مسکراہتے ہوئے فرمایا اب بھی آپ مجھ کو شرکت مجلس سماع سے معذور رکھیں گے یا نہیں؟ میں رکن الدین نے جواباً کہا وہی درست ہے جو آپ فرماتے ہیں اور آپ ہی حق پر ہیں باقی اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔
تقریباً 920ھ میں بزمانہ سلطنت سلطان سکندر آپ دہلی آئے اور 953ھ میں بزمانہ حکومت اسلام شاہ آپ نے وفات پائی آپ کا مزار سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کے اندر اس خانقاہ میں ہے جو حضرت امیر خسرو کے پائیں میں واقع ہے، اللہ ان سب لوگوں کی مغفرت کرے اور ان پر رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار