حضرت میاں علی محمد مشوری قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فقیہ اعظم ، تاج الفقہاء ، بحر العلوم و الفیوض ، غوث الزمان ، محبوب الدوران ،استاد الا ساتذہ ، اما م اہلسنت حضرت خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ الاقدس کے صا حبزادہ اکبر اور جانشین تاج الا صفیاء حضرت مولانا الحاج میاں علی محمد مشوری کی ولادت۲۵ ، شعبان المعظم ۱۳۳۷ھ بمطابق ۱۹۱۸ء بروز بدھ درگاہ و درسگاہ حضرت مشوری شریف ( ضلع لاڑکانہ ) میں ہوئی ۔
تعلیم و تربیت :
اپنے والد ماجد کی خدمت عالیہ یں رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کی اور مدرسہ جامعہ عربیہ قاسم العلوم مشوری شریف سے درس نظامی میں تکمیل کی ۔ ۱۹۴۴ء میں فارغ التحصیل ہو کر دستار فضیلت حاصل کی ۔
بچپن سے صابر ، شاکر صوم صلوۃ کے پابند ، کم گو سادگی پسند اور فقراء کی صحبت کے پابند تھے ۔
بیعت و خلافت :
اپنے والد ماجد تاج العافین سر کار مشوری قدس سرہ الاقدس کے دست اقدس پر بیعت ہو کر سلوک طئے کیا ، سلسلہ قادریہ راشدیہ اور سلسلہ نقشبند یہ راشدیہ کے اذکار و افکار کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ۔ریاضتوں مجاہدوں اور اذکار و افکار میں مشغول ہو کر مرشد کریم کے منظور نظر ہو گئے تھے اور خلافت و اجازت سے سر فراز ہوئے کیلن عرضہ طویل کے بعد حضرت قبلہ عالم کی علالت کی وجہ سے ۱۹۸۶ء سے جماعت کے اسرار کے پیش نظر بیعت کا سلسلہ شروع کیا ورنہ حضور قبلہ عالم کی صحت و عافیت کے دور میں آپ نے کسی کو بیعت میں نہ لیا ۔ تادم مرشد کریم کے مشن کو جاری رکھا ، ابتدا میں درس و تدریس دیتے تھے بعد میں موقوف کر دیا ، ہزاروں نفوس کو سلسلہ عالیہ میں داخل فرمایا اور ان کی اسلامی روحانی تربیت فرمائی ۔ نو جوانی سے درگاہ شریف پر لنگر کی ڈیو ٹی آپ پر تھی آپ ساری زندگی فقراء مہمانوں کی خدمت سر انجام دیتے رہے ۔
خطابت :
آپ حق گو مقرر تھے ، انتہائی سادہ لیکن پر جوش خطاب فرماتے ۔ آپ کی خطابت تعویذات ، صحبت وغیرہ سارے کام فی سبیل اللہ ہوتے صرف اس جذبہ کے تحت کہ شاید کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے ۔ خطاب میں توحید رسالت موقع محل کی مناسبت سے موضوع پر بات کرتے جس کو حق سمجھتے اس کو برملا بیان فرما دیتے تھے ۔ عصبیت پرستوں کی کھلے عام جلسوں میں تردید کی جب کہ ان دنوں میں ان کا زور تھا ۔شیعت اور وہابیت کے علاقوں میں ان کے باطل عقائد کی جراٗ ت ایمانی وغیرت اسلامی سے تردید فرماتے ۔ آپ نہ دبنے والے ، نہ جھکنے والے ، نہ ڈرنے والے تھے ۔وہ اللہ والے تھے اور ہر کام اللہ و رسول ﷺ کی رضا کی خاطر سر انجام دیا کرتے تھے ۔ اصلاح معاشرہ کے حوالہ سے بھی اسپیشلسٹ تھے ، معاشرہ کی ہر برائی کی خرابی سے عوام الناس کو آگاہ کیا ۔ بلکہ مجسمہ نصیحت و ہدایت تھے بلکہ ’’سیف اللہ ‘‘ ( اللہ کی تلوار) تھے ۔
خاک نشینی :
آپ عالم دین پیر طریقت تھے اس کے باوجود سادہ طبیعت ، سادہ لباس ، سادہ مزاج ایک کچا سادہ کمرہ لیکن مخزن سرور تھا، جس میں فرش پر تشریف رکھتے ، جہاں چند کتابیں دوات ، قلم، عصاء ، تسبیح نئی پرانی دو چار رلیاں (سندھی چادر ) سے یہ کمرہ مزین تھا آپ کا تسبیح خانہ جو کہ ’’کل کائنات ‘‘تھا ۔ لباس کو بغیر استری کئے ہوئے پسند فرماتے ، قمیص میں جیب نہیں ہوتی تھی ، زہد و تقویٰ سادگی اور توکل سے مالا مال زندگی گذاری ، دن میں کمرے سے باہر نکل کر کھلے فرش پر تشریف رکھتے او رسارا دن فقراء مہما نوں سے صحبت فرماتے اور طالب المولیٰ کو واصل باللہ کرتے ۔ اور غربا ء مساکین اور فقراء طالب المولیٰ پر ماں باپ سے زیادہ مہربان و مشفق و شفیق تھے ۔ کہیں دعوت پر تشریف لے جاتے تو وہ ہی سادگی نہ کوئی فرمائش کر تے نہ ہی آڈر جاری فرماتے بلکہ فرماتے ’’فقیر ساگ روٹی کھائے گا اور ریل گاڑی میں سفر کرے گا آپ کوئی تکلف نہ کریں کوئی پریشان نہ ہوں ‘‘۔ ایک بار حرمین شریفین گئے تو ضروری سامان کا بیگ بھی سا تھ نہیں لے گئے ایک جوڑے میں گئے اسی میں واپس آگئے ۔
سفر حرمین شریفین :
آپ نے دو حج کئے ۔ پہلا حج مبارک ۱۳۷۴ھ ؍ ۱۹۵۵ء میں اور دوسرا حج مبارک ۱۳۸۷ھ ؍۱۹۶۸ء میں حضرت محبوب مرشد مربی قدس سرہ کی معیت میں کیا ۔ علاوہ ازیں کئی بار حضرت نے مدینہ عالیہ اور مکہ معظمہ زادھما اللہ تعالیٰ شرفا و تعظیما کی حاضری کا شرف حاصل کیا ۔ اس سفر محبت میں آپ کا ادب و احترام عشق و محبت دیدنی تھا ۔
۱۹۸۹ء میں عراق کا سفر اختیار کیا۔ نجف اشرف میں امیر المومنین حضرت سید نا علی المرتضیٰ شاہ کر بلا معلی میں سید الشہداء حضر ت سید نا امام حسین شہید کر بلا بغداد شریف میں سر کار غوث اعظم ، محبوب سبحانی قطب ربانی، سید نا عبدالقادر جیلا نی او ر سر کار پاک امام اعظم سیدنا امام ابو حنیفہ کے مزارات پر انوار پر حاضری و خاک پوشی کا شرف حاصل کیا ۔ ان کے علاوہ دیگر انبیاء کرام و اولیا ء اللہ کی مزارات مقدسہ کی حاضری کی سعادت حاصل کی ۔ بغداد شریف میں ۱۲ دن قیام کے بعد حرمین شریفین کی حاضری کا سفر اختیار کیا دربار رسالت ماب ﷺ کی حاضری سے دل و آنکھوں کو معطر و منو رکیا ۔
۱۹۹۵ء میں دوسری بار جماعت کے وفد کے ساتھ عراق کا سفر ٹرین اور بس کے ذریعے کیا ۔ کوئٹہ ، تافتان ، زاہدان ، ایران اور ایران سے بذریعہ ٹرین و بس کے عراق گئے ، وہیں زیارات کی واپسی میں ایران کی زیارات کر کے بس کے ذریعہ واپس کوئٹہ پہنچے جہاں سے ٹرین میں لاڑکانہ واپس ہوئے ۔
آخری عمر ہ ۱۹۹۸ء میں کیا اور پورا رمضان شریف مدینہ منورہ میں گنبد خضریٰ کے زیر سایہ گذارا اور واپسی پر چار ماہ کے بعد وصال فرمایا۔
تصنیف و تالیف :
٭ ھدایۃالمصلی (سندھی ) طہارت و نماز کے مسائل پر جامع کتاب ہے دو ( ۲) با ر زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے۔
٭ گلدستہ فیض روحانی فی الذکر و الافکار یزدانی ( سندھی ) تصوف کے موضوع پر بہترین کتاب ہے پہلا ایڈیشن چھپ چکا ہے ۔ قاری ممتاز احمد قاسمی نے اردو کا جامہ پہنایا ہے ۔
اور ادارہ قاسم العرفان کراچی نے ۲۰۰۴ء میں شائع کیا ۔
٭ معراج نامہ ۔ پردہ عورت ۔ تحفۃ الفیض ۔ حکم الشریعۃ فی رویۃ الھلال ۔ روئد اد سفر وغیرہ
شادی و اولاد :
آپ نے پہلی شادی اپنے خاندان میں کی جس کے بطن سے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تولد ہوئی ۔
۱۔ صاحبزادہ احمد مٹھو مشوری مرحوم
۲۔ صاحبزادہ حضرت مولانا منیر احمد مشوری مدظلہ العالی
بزرگی میں دوسری شادی فقیر عبدالحی ملاح ( مدئجی ) کی ہمشیرہ سے کی جس سے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔
وصال :
حضرت قبلہ میاں علی محمد مشوری قادری نے ۱۹، صفرالمظفر ۱۴۱۹ھ؍۱۵، جون ۱۹۹۸ء بروز پیر صبح صادق کے وقت اسی ( ۸۰) سال کی عمر مبارک میں وصال کیا ۔ درگاہ مشوری شریف ( ضلع لاڑکانہ ) کے گنبد شریف کے زیر سایہ آپ کا مزار شریف مرجع خلائق ہے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)