مولاناحکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی
مولاناحکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی (تذکرہ / سوانح)
مولاناحکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
اسمِ گرامی: آپ کا اسمِ گرامی مرزا غلام قادر بیگ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت خواجہ عبداﷲ احرار علیہ الرحمہ سے ملتا ہے۔ حضرت احرار رحمتہ اﷲ علیہ نسلاً" فاروقی "تھے۔ اس طرح آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے۔
تاریخ ومقامِ ولادت: حضرت مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ لکھنوی رحمتہ اﷲ علیہ یکم محرم الحرام 1243ھ/1827ء کو محلہ جھوائی، ٹولہ لکھنؤ (یوپی، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد نے لکھنؤ سے ترک سکونت کرکے بریلی میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
سیرت وخصائص: حضرت مرزا غلام قادر بیگ رحمۃ اللہ علیہ مایہ ناز عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ومشفق استاد بھی تھے۔ اپنی خدا دادصلاحیتوں کی وجہ طالبِ علم کو دیکھتے کے ساتھ ہی اس کی قابلیت کا اندازہ لگالیتے۔ آپ نے مولانا نقی علی خان اور ان کے والد رحمۃ اللہ علیہما کے ساتھ ملکر تحریکِ آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔مولانا مرزا غلام قادر بیگ اور امام احمد رضا بریلوی کے والد ماجد مولانا نقی علی خاں کے درمیان بڑے دیرینہ تعلقات تھے۔ اس لئے مولانا مرزا غلام قادر بیگ نے امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ کی تعلیم اپنے ذمہ لے لی تھی۔ امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے ابتدائی کتابیں" میزان و منشعب" وغیرہ انہیں سے پڑھیں۔
ایک مغالطے کاازالہ: بعض دروغ گوبدمذہب(باالخصوص"البریلویہ"کامصنف جس کو اس کتاب میں دروغ گوئی وکذب بیانی کی وجہ سے "سیدالکاذبین"کالقب ملنا چاہیے(لعنۃ اللہ علی الکاذبین)۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بغض وعناد کی وجہ سے اور لوگوں کوگمراہ کرنے کیلئے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئےآپ کے استادِ محترم مولانا حکیم مرزا غلام قادر بیگ بریلوی علیہ الرحمہ کومرزاقادیانی(ملعون) کا ایک بھائی جس کانام مرزاغلام قادر گوداسپوری ہے۔اس نام کی مشابہت کی وجہ سے یہ "جھوٹ گھڑاکہ مرزاقادیانی کابھائی اعلیٰ حضرت کااستاد ہے"۔یہ دروغ گوئی اسی وقت تک چلتی ہے جب تک حقیقت سامنے نہ ہو، لیکن جب سحر طلوع ہوتی ہے تو اندھیرے بھاگنا شروع ہوجاتے ہیں،اور ہرطرف حق سچ کے اجالےنظر آجاتے ہیں۔
آئیے!دیکھتے ہیں حقیقت کیا ہے:مرزاقادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر بیگ "گورداسپور"کارہنےوالاتھا۔اعلیٰ حضرت کے استاذ ِ محترم "بریلی"کے رہنے والے تھے۔وہ انگریز کا ایجنٹ تھا،اسے انگریز گورنمنٹ نے "تھانیدار"بنارکھاتھا۔یہ عالمِ دین اور"مجاہدِاسلام"اور انگریز کے سخت مخالف تھے۔اس کا سنِ وفات"1883ء / 1301ھ"ہے،اورحکیم مرزا غلام قادر بیگ اعلیٰ حضرت سے اکثر سوالات کے جواب طلب فرمایا کرتے تھے۔ فتاویٰ رضویہ میں اکثر استفتا ء ان کے موجود ہیں۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ "تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین" (1305ھ/1887ء) تحریر فرمایا ہے۔"فتاویٰ رضویہ جلد سوئم" مطبوعہ مبارک پور (ہندوستان) کے صفحہ 8 پر ایک استفتاء ہے جو مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے 21 جمادی الآخر 1314ھ کو ارسال کیا تھا۔اسی طرح "فتاویٰ رضویہ جلد گیارہ" مطبوعہ بریلی (ہندوستان) بار اول کے صفحہ 45 پر ایک استفتاء ہے جو مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ نے کلکتہ دھرم تلا نمبر 1 سے 5 جمادی الآخر 1312ھ کو ارسال کیا تھا۔ان کے مطابق تو 1301ھ، کو مرنے والا 1305،1312ھ،1314،کو کئی بار زندہ ہوکر سوال کررہا ہے؟۔اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت نے حق کہا ہے۔"الوہابیۃ قوم لایعقلون" کسی نے سچ کہا ہے۔؏:خداجب دین لیتا ہے۔عقل چھین لیتا ہے۔
"مرزا" اور" بیگ" خطاب ملنے کی وجہ: آپ کا خاندان نسلاً ایرانی یا ترکستانی مغل نہیں ہے بلکہ مرزا اور بیگ کے خطابات اعزازی و شاہان مغلیہ کے عطا کردہ ہیں۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال یکم محرم الحرام1363ھ/ اکتوبر1943ء کو نوے سال کی عمر میں ہوا اور محلہ باقر گنج، واقع حسین باغ، بریلی میں دفن ہوئے۔