آپ شیخ حسن کے مرید اور خلیفہ تھے، راہ طریقت کے صادقین میں سے تھے، صاحب کرامت و استقامت اور اہل حرمت و تقویٰ تھے، زمانہ کے لحاظ سے اگرچہ آپ متاخرین میں سے تھے لیکن صفائی معاملہ کے پیش نظر متقدمین میں شمار ہوتے تھے۔
نفس کے مورچے: آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تیس سال جان کھپائی اور ریاض کیا تب کہیں نفس کی مکاریوں کا تھوڑا ساعلم حاصل ہوا اور یہ معلوم ہوسکا کہ نفس کس طرح ڈاکے ڈالتا ہے اور اس کے مورچے کون کون سے ہیں۔
دنیوی مال نہیں چاہئے: حکایت ہے کہ شہنشاہ نصیرالدین محمد ہمایوں بادشاہ نے آپ سے نذرانہ قبول کرنے کی بارہا درخواست کی لیکن آپ نے انکار فرمادیا، ایک مرتبہ بادشاہ نے وہ تمام مہریں جو شاہی فرمان پر لگی ہوتی ہیں ایک سادہ کاغذ پر لگا کر آپ کے پاس روانہ کیا تاکہ آپ اس میں جتنے مواضع اور جتنی مقدار رقم کی چاہیں لکھ لیں، لیکن آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں اور بغیر ضرورت مسلمان کا حق دبالینا جائز نہیں ہے، نیز میں نے اپنے مرشد سے یہ عہد کیا ہے
از خدا خوا ہم و زغیر نخوا ہم بخدا!
نہ نیم بندۂ غیرے نہ خدائے و گراست
اس پر انہوں نے کہا کہ آپ اسے اپنے بیٹوں کو دیدیجئے کیونکہ ان کو ضروت ہوگی، تو جواب دیا مجھے ان پر حکم چلانے کا کیا حق وہ چاہیں لیں یا نہ لیں، آخر کار جب یہ فرمان آپ کے بڑے صاحبزادے شیخ عبداللہ کو دیا گیا تو انہوں نے بھی اس کو قبول نہیں کیا اور جواباً کہا بیٹا وہ ہے جو باپ کے نقش قدم پر گامزن رہے جب پدر بزرگوار نے اس کو قبول نہیں کیا تو مجھے بھی لازماً وہی کرنا چاہیے۔
میرے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ ہم چند آدمی جونپور سے دہلی کی طرف روانہ ہوئے جب مظفر آباد کے قریب پہنچے تو میاں قاضی خاں سے ملاقات کو غنیمت سمجھ کر ان کی خانقاہ میں گئے اور شیخ وقت کے برآمد ہونے کے منتظر تھے کہ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا اور شیخ وقت اپنے دوسرے رفقاء صوفیوں کے ساتھ خلوت سے نکل کر باہر آئے پھر نماز پڑھنے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور دریافت فرمایا آپ لوگ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں کا ارادہ ہے اور کیا کام کرتے ہیں اور آپ کے اسم گرامی کیا ہیں؟ ہم میں سے ہر ایک نے مختصر جواب دیا، اس کے بعد دسترخوان بچھا اور درویشی کھانا کھلا کر ہم سب کو رخصت کیا۔
میرے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ میں جونہی آپ کے مکان سے نکلا تو مجھے پر ایک ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا، آپ نے 15؍صفر 970ھ میں انتقال فرمایا اور آپ کا مزار ظفرآباد (دہلی) میں ہے۔
اخبار الاخیار