آفتاب ولایت حضرت میاں شیر محمد قپوری قدس سرہ العزیز
آفتاب ولایت حضرت میاں شیر محمد قپوری قدس سرہ العزیز (تذکرہ / سوانح)
شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شر قپوری ابن حضرت میاں عزیز الدین شر قپوری قدس سرہما ۱۲۸۲ھ/۶۔۱۸۶۵ء میں شر قپور شریف میں پیدا ہوئے[1]
آپ کی ولادت سے پہلے حضرت خواجہ امیر الدین قدس سرہ (پیر و مرشد حضرت میاں صاحب) نے شر قپور میں آمد و رفت شروع کر دی تھی کیونکہ انہیں کشف سے معلوم ہو گیا تھا کہ اس جگہ ایک ولی اللہ پیدا ہوگا [2]
بچپن ہی میں آپ پر محبت الہٰیہ کا غلبہ تھا ۔حیاء کا یہ عالم تھا کہ گلی کو چے میں چار اوڑھ کر گزرتے ۔محلے کی عورتیں کہا کرتی تھیں ہمارے محلہ میں لڑکی پیدا ہوئی ہے ختم قرآن پاک کے بعد مڈل سکول شر قپور میں پانچ جماعت تک تعلیم حاسل کی ۔ سکول سے واپس آکر مسجد کے کسی کونے میں بیٹھ جاتے اور ذکر الٰہی میں مشغول ہو جاتے ۔ بعد ازاں فارسی کی کچھ کتابیں اپنے چچا حضرت حافظ حمید الدین سے پڑھیں ،حکیم شیر علی سے بی کچھ پرھا ۔ پھر خوشنویسی کا شوق پیدا ہوا اور اس فن میں کمال حاصل کیا ۔ کئی قرآن پاک جن کے ابتدائی اور آخری پارے بو سیدہ ہو گئے تھے ، انہیں خود لکھ کر مکمل کیا۔
ظاہر طور پر صرف اسی قدر تعلیم حاصل کی لیکن قدرت ایزدی نے آپ کو علم لدنی کی دولت سے مالا مال کردیا۔بڑے بڑے علماء حاضر ہوتے تو خمیدہ سر، دوزانو ہو کر بیٹھتے اور آپ کے علوم و معارف سے مستفید ہوتے۔
جو دس سخا کی یہ کیفیت تھی کہ جو ضرور تمند حاضر ہوتا اس کی حاجت روائی فرماتے حضرت با با امیر الدین رحمہ اللہ تعالیٰ ( کوٹلہ شریف ) کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ اجازت وخلافت سے مشر ف ہوئے[3]
حضرت میاں صاحب قدس سرہ کی پر کشش شخصیتے سے فیضیاب ہونے کے لئے دور دراز سے لوگ حاضر ہوتے اور شاد کام واپس جاتے ۔ آنے والے ہر عقیدت من کو شریعت مطہرہ کی پیروی کا حکم دیتے ۔بعض اوقات خلاف شریعت صورت و سیرت رکھنے والے افراد کو صرف زبانی سمجھانے پر اکتفاء نہ کرتے بلکہ تھپڑ تک رسید کر دیتے ، کیا مجال کہ کوئی اف بھی کر جائے ، ایسے افارد نادم ہو کر تائب ہو جاتے اور عمر بھر میاں صاحب کے ممنون رہتے ، حضرت میاں جمیل احمد شر قپوری لکھتے ہیں :۔
’’پھالیہ کے غلام رسول صحب نے اپنی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا کہ ۱۹۲۴ء میں سرہند شریف جاتے ہوئے حضرت میاں صاحب کی زیارت کیلئے شر قپور شریف حاضر ہوا ، کچھ اور افراد بی موجود تھے، ان سے گفتگو فرمانے کے بعد مجھ سے پوچھا یہ بزرگ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا پھالیہ سے فرمایا مو یشیوں میں وقت گزارتے ہو لیکن نماز کا خیال تک نہیں کرتے، میرا نام پوچھ کر فرمایا، کیسا اچھا نام ہے اور شکل یسی بنارکھی ہے ۔ پھر فرمایا چھوٹے بھائی کانام کیا ہے ؟ میںنے عرض کیا ،نبی بخش ! اس پر بندہ کو ایک تھپڑ رسید کیا اور فرمایا پھر آئو تو غلام رسول بن کر آنا ، نماز پابندی سے ادا کیا کرو۔ ( کچھ وظائف بتا کر ) اسلام کی پہلی کتاب ( تالیف لبیف مولانا غلام قادر بھیروی قدس سرہ ) اور تواریخ حبیب الہٰ(تالیف مولانا متی عنایت احمد کا کوروی قدس سرہ ) کے مطالعہ کی تاکید کی اور رخصت عطا فرمائی‘‘[4]
حضرت مولانا مفتی غلام جان ہزاروی ثم لاہوری (مرید اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ ) جامعہ نعانیہ میں مدرس تھے ۔ انہوں نے حضرت میاں صاحب کا بڑا چر چا سنا پھر یہ بھی پتہ چلا کہ امام المحدثین حضرت م ولانا سید دیدار علی شاہ قدس سرہ ان کی ملا قات کے لئے گئے تھے،واپسی پر ان سے بھی میاں صاحب کی تعریف سنی تو زیارت کا شوق لئے شر قپور شریف پہنچ گئے ، مشا قان زیارت پہلے سے موجود تھے یہ بھی بیٹھ گئے ،اس سے پہلے میں صاحب کی زیارت نہیں کی تھی چنانچہ جب میاں صاحب تشریف لائے تو انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ کوئی درویش ہوں گے۔ میاں صاحب نے پوچھا : آپ کہاں سے آئے ہیں اور کیا شغل ہے ؟ مفتی صاحب نے بتایا لاہور سے آیا ہوں اور جامعہ نعما نیہ میں پڑھاتا ہوں ۔ میاں صاحب نے فرمایا: کیسے اائے ؟ عرض کی ، قبلہ میاں صاحب کی قد مبوسی کو آیا ہوں ۔ فرمایا: میاں صاحب کو مل کر کیا کروگے تم خود عالم ہو ، تمہیں فقیروں سے ملنے کی کیا ضرورت ہے ؟ مفتی صاحب نے غصے میں پوچھا کیا فقیروں کو ملنا گناہ ہے تم فقیروں کے پاس رہ کر ایسے گمراہ ہو کہ فقیروں سے ملنا گناہ سمجھتے ہو! میاں صاحب نے فرمایا مولوی احمد علی (شیر انوالہ دروازہ لاہور )اور مولوی غلام مرشد کیسے ہیں ؟ مفتی صاحب نے کہا ، وہ بھی تمہاری طرح گمراہ ہیں جو فقراء کے قائل نہیں۔فرمایا تو تم غصے میں آگئے ہو ۔ مفتی صاحب نے کہا تم خود غصے کی باتیں کر رہے ہو ، میاں صاحب سے عرض کروں گا کہ آپ نے ایسے گمراہ کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔
میاں صاحب آگے بڑھ گئے اور ایک ڈاڑھی منڈے سے فرمایا تم نے ڈاڑھی کیوں منڈوائی ہے، اگر تیری بیوی کا سر مونڈ دیا جائے تو اچھی معلوم ہوگی ؟ اس نے کہا نہیں ، اور شرمسار ہو کر ڈاڑھی نہ منڈوانے کا عہد کیا ۔ا سی طرح میاں صاحب ایک ایک آدمی کو ہدایت کرتے گئے،اتنے میں کسی نے مفتی صاحب کو اشارۃ بتا دیا کہ یہی میاں صاحب ہیں۔ مفتی صاح کو بڑی ندامت ہوئی اور رقت طاری ہو گئی ۔ کچھ دیر بعد میاں صاح بتشریف لائے اور کشف المجوب لا کر دی جس میں تین جگہ نشانی رکھی ہویی تھی ۔ حضرت میاں صاحب گھر تشریف لے گئے اور واپسی پر مفتی صاحب کے لئے قریباً آدھ سیر کجھوریں لے آئے۔مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ میں جن تین عقدوں کے حل کے لئے حضرت میاں صاحب کی خدم میں حاضر ہوا تھا کشف المجوب کے مطالعہ سے تینوں حل ہو گئے۔میاں صاحب نے فرمایا: ان ہاتھوں کو یاد رکھنا اور ان پر عمل کرنا، پھر فرمایا مولوی احمد علی(شیر انوالہ دروازہ لاہور) گزشتہ جمعہ یہاں آیا تھا ، وہ یہاں جمعہ پڑھانے نہیں دیا ، واپسی پر جب مفتی صاحب بس پر سوار ہوئے تو دیکھا رو مال کے کونے م یں ایک روپیہ بندھا ہواتھا جو آمد و رفت کا کرایہ تھا[5]
حضرت میاں صاحب قدس سرہ دور آخر میں صاح بکرامت بزرگ تھے۔ آپ کی بہت بڑی کرامت تھی کہ طیشمار افراد آپ کی ہدایت پر صورت و سیرت میں متبع شریعت بن گئے۔آپ کے مریدین اور معتقدین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔آپ نے کئی کتابیں چپوا کر تقسیم کیں اور متعدد مسجدیں بنوائیں ۔
آپ کے بعد آپ کے برادر حقیقی حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شر قپوری قدس سرہ جانشین ہوئے ،انہوں نے میاں صاحب کی روایت کو پوری آب و تاب سے باقی رکھا ۔اب حضرت ثانی لاثانی کے فرزند اجمند حضرت الھاج میاں جمیل احمد شر قپوری مدظلہ زیب سجادہ ہیں، مسلک اہل سنت اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
۳ربیع الاول ، ۲۰ اگست ( ۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ئ) بروز ج اں افروز سو موار شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ کا وصال ہوا[6]
شر قپور شریف میں آپ کے مزار پر انوا ر پر گنبد تعمیر ہو چکا ہے ، ہر سال بڑے اہتما م سے آ پ کا عرس ہوتا ہے ۔
چو مولانائے قبلہ شر قپوری
زدنیا شد رواں باکم وآرام
’’وصال شیر حق ‘‘ شیر محمد ‘‘
۱۳۴۷ھ
شدہ سال و صالش ، اے نکو نام[7]
اسم ذات شیر ربانی حضرت میاں شیر محمدنے
اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا،
حضرت میاں شیر محمد شر قپوری رحمہ اللہ تعالیٰ سے حکیم مظفر حسین قریشی (موضوع اجتکے ضلع گوجرانوالہ) نے ایک عریضہ کے ذریعے وظیفہ ’’ یاشیخ سید عبد القادر جیلانی شیئاً للہ‘‘ ( جس کے پڑھنے پر مولوی ثناء اللہ امر تسری اور دیگر علماء نے فتویٰ کفو شرک دیا تھا ) کے جواز کے بارے مین دیافت کیا تھا،آپ نے جو جواب دیا، درج ذیل ہے:۔
خدا وند کریم فضل و کرم سے انجام خیر کریں
ہر حال شکر اور ذکر فکر عبرت ضروری ہے ، سو آج کل محال ہے ،اس وسوسہ میں پرناز یبا نہیں ،غریب تو پڑھا کرتا ہے بلکہ کل ولی سے امداد لینا جائز ہے ، آپ کا دل چاہے تو خری پڑھا کریں۔حضرت میراں محی الدین حضرت شیخ عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ عجیب طرز کی توحید میں فنا تھے اس لئے جو لوگ ان کو یاد کرتے ہیں انہوں کو خدا سند کریم کی محبت کامل ہو جاتی ہے ، اخیر سب کا رجوع رب کریم کی جانب ہے ، اواللہ خیر حفظا وہو رحم الراحمین آپ کے وجود غیر خداسے نہیں بنا ہے ، اس کا ثبوت قادری قلندروں سے لیں ، اگر کوئی نہ پڑھے تو خیر۔
خدا وند کریم کی سنت جاری ہے ہر ایک کو ایک کام سپرد کیا ہے ، جیسا ہر اک چیز سے کام لیا جا تا ہے ،ویسا یہی ہے :
درد لم ہزار دردست لاکن ہاکش نگوئم
بہر حال جمال اللہ بینم
بہر قال جمال اللہ بینم
بجز روئش نخواہم ہیچ چیزے
زشوق جال جمال اللہ بینم
فرصت کم ، خط کی رسم ہی نہیں ۔
(آئندہ صفحات میں اسل سوال و جواب کا عکس دیا جا رہا ہے )
[1] محمد ابراہیم قصوری نقشبندی : خزاینۂ معرفت (دوسرا ایڈیشن) ص ۹۳ ( نوٹ : ملک حسن علی شر قپوری نے سال ولادت ۱۸۲۳ء لکھا ہے)
[2] حسن علی شر قپوری ،ملک : حیات جاوید ، (مطبوعہ رفیق عام پریس لاہور )ص۱۰
[3] ایضاً : ص ۱۲۔۲۰
[4] ماہنامہ نور اسلام ، شیر ربانی نمبر ، شر قپور جون جولائی ۱۹۶۹ء ص ۲ ۔۱۵۱
[5] قلمی یا د داشت حضرت مولانا مفتی غلام جان ہزاروی ، مملوکہ مولانا محمد مظفر اقبال رضوی زید مجدہ
[6] احمد علی شر قپوری : آفتاب ولایت ، ص ۱۲۰
[7] ماہنامہ نور اسلام ، شیر ربانی نمبر ، جون و جولائی ۱۹۲۹ء ص ، ۱۲۴
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)