میاں غلام محمد سہروردی
میاں غلام محمد سہروردی (تذکرہ / سوانح)
میاں غلام محمد سہروردی رحمتہ اللہ علیہ
آپ نے علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد ہی میدان تصوف میں قدم رکھا تھا جس کےلیئے آپ نے مختلف مقامات پھرے،آپ نے سید ظہور الحسن بٹا لوی رحمتہ اللہ علیہ سے جو سلسلہ عالیہ قادریہ سے منسلک تھے بھی فیض حاصل کیا،مزید براں فتح پور کے ایک بزرگ میاں قطب الدین وڑائچ رحمتہ اللہ علیہ سے بھی آپ کو برکات حاصل ہوئیں، آپ رسول پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے، تاریخی نام،غلام صدیق،تھا والد کا نام میاں محمد علی تھا، سات سال کی عمر میں دینی علوم حاصل کرنے کےلیئے مد ر سے چلے گئے اور درسی کتب سے استفا دہ کیا، چھبیس سال تک یہی سلسلہ جاری رہا پھر باطنی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
بیعت:
آپ نے سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں حضرت شرف الدین عرف بابا جنگو شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت کی جن کا مزار موضع ملہو کھوکھر گجرات میں واقع ہے جو اپنے عہد کے قطب ولایت تھے، آپ نے مجاہدہ اور چلہ کشی میں نام پیدا کیا تھا، دریائے چناب کے کنارے آپ کی چلہ گاہ بہت مشہور ہے جو دریا کے اندر تک چلی گئی تھی، صاحب ،تذکرہ غوثیہ، نے بابا جنگو شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ کی بزرگی کی بہت تعریف کی اور انہی قلندر بزرگ سے میاں غلام محمد سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے فیوض و برکات حاصل کیئے اور دینا میں نیک نام پیدا کیا۔
لاہور میں آمد:
آپ تقریباً سال میں ایک دو دفعہ ضرور لاہور تشریف لایا کرتے تھے کیونکہ یہاں محلہ آبادیاں قلعہ گوجر سنگھ میں آپ کے نامور مرید صوفی قلندر علی سہروردی رہائش پذیر تھے اکثر آپ اپنے ایک مرید ہدایت بیگقلعہ گوجر سنگھکے مکان پر ،چوہدری محمد یوسف سہروردی بی اے گڑھی شاہو اور مصطفیٰ آباددھرم پورہ کے مکان پر رونق افروز ہوا کرتے تھے،مزنگ میں بھی آپ کے مریدوں کے پاس آجایا کرتے تھے۔
بابا جنگو شاہ شہروردی رحمتہ اللہ علیہ
مولوی محمد صالح کنجا ہی اپنی تصنیف،سلسلہ اولیاء،قلمی میں بابا جنگو شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں، حالش عجیب حالے است کہ پر وائے کسے اند ارد و در زمستان تالستان بیرون ماند نہ از سردی خطرے نہ از گرمی اثر ے نہ با منعم الفتے ونہ از گد ا نفرتے ونہ باکس انسے دروازے ہمیشہ باحق در سو گدازے۔
پر تحت نشتہ شاہے از ترک بتا رکش کلا ہے
از ہر دوجہاں در خبر نے واز گرمی و سردیش ضررنے
از جام و صبو حے بیخو دی مست از بود نبود کون و ارست
بابا جنگو شاہ کی وفات ۱۲۸۱ ھ بمطابق ۱۸۶۴ءمیں ہوئی، آپ کے متعلق دیوان شیخ عبداللہ میں لکھا ہے۔
جناب شاہ جنگو تودہ خاکسر عشقش
چو او مجذوب ذات کبریا کمتر شود پیدا
بجائے شیخ تار نخش ز خا کستر علی گو ید
زر گم گشتہ و آرائش خاکستر شود پیدا
وفات حسرت آیات:
زندگی کے آخری ایام میں آپ اپنے پیرو مرشد بابا محمد رمضان سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس حیات گڑھ آگئے تھے اور وہاں ہی آپ کی وفات اپنے مرید صوفی قلندر علی سہروردی لاہوری المتو فی ۱۹۵۸ء سے تقریباً سات سال قبل ۱۹۵۱ء میں بمقا م حیا ت گڑھ ہوئی جوکہ جلا لپور جٹاں گجرات سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر برلب سڑک واقع ہے،نماز جنازہ آپ کی حضرت صوفی قلندر علی رحمتہ اللہ علیہ نے پڑھائی جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی،عمر مبارک تقریباً ایک سو سال سے زائد تھی۔
سھر وردی سلسلہ کے اولیاء
جو
مدینہ الاولیاء لاہور کے ہی ہور ہے
اور
یہاں کی خاک پاک میں آسودہ ہیں
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)