حضرت مولانا عبدالہادی بلوچ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا الحاج عبدالہادی بن محمد سعید شر بلوچ گوٹھ نگر خان شر تحصیل فیض گنج ضلع خیر پور میرس میں ایک اندازے کے مطابق ۱۸۹۵ء کو تولد ہوئے۔ چھ ماہ کی عمر میں والد صاحب انتقال کر گئے ، والدہ ماجدہ اور برادر اکبر و سان خان کی کفالت میں تعلیمی مراحل طے کئے ۔
تعلیم و تربیت :
مولانا رحمت اللہ شر آپ کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت شیخ طریقت حافظ محمد صدیق قادری ؒ بانی درگاہ بھر چونڈی شریف کے مرید و مستفیض تھے۔ مولانا صاحب ان دنوں ضلع بدین کے گوٹھ میں میاں محمد عثمان کے مدرسہ میں مدرس تھے ۔ مولانا رحمت اللہ نے عبدالہادی کو اسی مدرسہ میں داخل کر کے خود تعلیم دی ۔ وہیں ناظرہ قرآن حکیم ، فارسی میں سکندر نامہ اور عربی میں صرف بہائی تک تعلیم حاصل کر چکے تو آپ کے استاد محترم مولانا رحمت اللہ کی طبیعت نا ساز ہو گئی جس کے سبب گھر واپس چلے گئے او رعلالت کے بعد جلد انتقال کر گئے ۔ اس سانحہ سے آپ کے سر سے شفیق استاد کا سایہ عاطفت اٹھ گیا اور صدمہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ۔
بہر حال والدہ ماجدہ نے ہمت مرداں سے کام لیتے ہوئے شفقت کا سایہ دراز کیا اور آپ کو درگاہ معلی راشدیہ پیران پگارہ پیر جو گوٹھ بھجوادیا ، جہاں آپ نے ’’جامعہ راشدیہ ‘‘ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اس کے بعد حضرت مولانا عبداللہ بھرٹ کے مدرسہ میں توضیح وتلویح تک تعلیم حاصل کی ۔ مولانا عبداللہ ، مولانا رحمت اللہ کے ہم درس و ہم استاد تھے ۔
بیعت :
جامعہ راشدیہ میں دوران تعلیم حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول راشدی المعروف پیر صاحب پگارہ پنجم ؒ کے ہاتھ پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں دست بیعت ہوئے ۔ حضرت کے وصال کے بعد حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی مجددی ؒ سے صحبت اختیار کی اور بعد میں خلافت سے نوازے گئے۔
عادات و خصائل :
آپ کی مختصر آبائی زمین تھی جس کی زمیندار کرتے اور اسی سے معاش کا مسئلہ حل ہوتا ۔ اس کے علاوہ اپنے گوٹھ میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ گرجدار مقرر تھے جمعہ کے روز خطاب میں مجمع جمع ہو جاتا تھا ۔ عبادت گذار ، شب خیز مومن ، وضع قطع سادی ، شریعت مطہر ہ کے پابند اور کبھی کبھی راتیں قبرستان میں گذار تے تھے ۔ فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے مزارات اولیاء اللہ پر کثرت سے حاضری دیا کرتے تھے۔ مثلا ، حضرت شہبا ز ولایت لعل شہباز قلندر ، غوث بہاوٗ الدین زکریا ملتانی اور مخدوم عبدالرحیم گرھوڑی وغیرہ ۔
شاعری :
شاعری سے بھی قلبی لگاوٗ رکھتے تھے۔ سندھی ، فارسی ، سرائیکی میں کلام دستیاب ہے ۔ کلام حب مصطفی ﷺ ، معرفت خداوندی ، مذمت نفس امارہ ، تزکیہ و تصفیہ نفس اور اخلاق و آداب پر مشتمل ہے۔
ایام اسیری :
مولانا کودرگاہ شریف راشدیہ پیران پگارہ قلبی لگاوٗ تھا ۔ مجاہد کبیر ، امام انقلاب ، حر تحریک کے رہنما حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی راشدی المعروف پیر صاحب پگارہ ششم زہید بادشاہ نے جب انگریز غاصب کے خلاف تحریک کو منظم کیا تو مولانا نے حضرت کی زیر کمان تحریک میں کام کیا۔ تقریر کے ذریعے مجاہدین کو انگریزوں کے خلاف بھڑ کاتے رہے۔ با لآخر اسی جرم میں ۱۹۴۲ء کو گرفتار ہوئے اور ۱۹۴۷ء میں پانچ سال ایام اسیری گذار کر خیر پور جیل سے آزاد ہوئے ۔
پانچ سال جیل میں خاموش نہیں بیٹھے رہے بلکہ مدرسہ پڑھاتے رہے۔ مسلمانوں خصوصا حر تحریک سے وابستہ افراد میں سے ان پڑھ مجاہدین کو سندھی و قاعدہ پڑھاتے اور پڑھے لکھے مجاہدین کو قرآن و حدیث کا درس دیتے تھے ۔ انگریزوں ککے خلاف جیل میں بھی تحریک چلاتے رہے۔
وصال :
مولانا عبدالہادی نے ۳، ذوالحجہ ۱۳۹۸ھ بمطابق ۱۳، دسمبر ۱۹۷۷ ء کو انتقال کیا۔
[یہ مواد فقیر محمد نواز احقر شر قوم کا تحریر کردہ ، جناب امام بخش حنفی قادری تحصیل فیج گنج کی معرفت موصول ہوا ۔ فقیر دونوں کا مشکور ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)