حضرت مولانا عبدالکریم پشاوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ حضرت مولانا درویزہ رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے تھے اور میر سید علی غواص رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے آپ کو ظاہری اور باطنی تربیت اپنے والد بزرگوار سے ملی انہیں بعض لوگ اخوند کریم داد کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں آپ نے اپنے اشعار میں یہی نام استعمال کیا وہ صاحبِ شریعت طریقت اور حقیقت بزرگ تھے آپ کا کلام مخزن الاسلام کے آخری حصے میں ملتا ہے خلاصتہ البحر میں آپ کو محقق افغانستان لکھا گیا ہے کہتے ہیں جب مولانا نے کتاب مخزن الاسلام مکمل کی تو رات کے وقت سفید کاغذ کا ایک دستہ اپنے حجرے مبارک میں لیجا تے اور چراغ روشن کیے بغیر لکھتے جاتے صبح اپنے دوستوں کو دیتے اور اِس طرح تمام مخزن الا سلام مکمل کردی۔
معارج لولایت میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے مولانا سے پوچھا کہ غوث کسے کہتے ہیں اور اُس کی کیا تعریف ہے آپ نے فرمایا جب غوث فوت ہوتا ہے تو جو شخص بھی اُس کے چہرے پر نظر ڈالتا ہے تو وہ مسکراتے نظر آتے ہیں آپ کی وفات کا جب وقت آیا تو وہ شخص امتحان کے لیے آپ کے پاس گیا اور آپ کے چہرے کو دیکھا تو آپ مسکراتے ہوئے دکھائی دیئے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی وہ بات کرنے لگے ہیں وہ شخص اپنے خیالات سے تائب ہوا اور کہا بس مجھے اِس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔
ایک بار مولانا عبدالکریم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے باپ سے کہا کہ جس دن آپ میری والدہ سے نکاح کرکے اپنے گھر لائے تھے تو کیا راستے میں نکاح سے پہلے آپ نے دست انداز کرنے کی کوشش کی تھی اور فلاں درخت کے تنے سے آواز آئی کہ ابھی تک یہ عورت تمہارے لیے نامحرم ہے نکاح سے پہلے دست اندازی کرنا درست نہیں بلکہ اِسے چھونا بھی حرام ہے یہ آواز میری تھی۔
مولانا عبدالکریم رحمۃ اللہ علیہ ۱۰۷۲ ہجری میں فوت ہوئے آپ کا مزار یوسف زئی علاقے میں ہے۔
چون کریم و اکرم اہل اکرم
باکرامت گشتِ در جنت مقیم
اہل خلوت سال وصلش ہست و نیز
والی عرفان کریم ابن الکریم
۱۰۷۲ھ