حضرت فاضلِ شہیر مولانا الحاج محمد عبدالرشید جھنگوی، جھنگ علیہ الرحمۃ
استاذ العلماء حضرت مولانا ابوالضیاء محمد عبدالرشید بن مولانا حکیم قطب الدین ابن مولوی احمد بخش ۱۳؍جمادی الاولیٰ ۱۳۳۸ھ/ ۳؍فروری ۱۹۲۰ء میں چک ۲۳۳ ضلع جھنگ کے ایک عظیم علمی گھرانے میں تولد ہوئے۔
آپ کے والد ماجد حضرت مولانا علامہ محمد قطب الدین قدس سرہ (م۵ ربیع الثانی ۱۳۷۹ھ/ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۵۹ء) بہت بڑے مناظر، منفرد انشاء پرداز، صاحبِ قلم اور کامل طبیب تھے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی دینِ اسلام اور مسلکِ اہل سنّت و جماعت کے تحفظ اور اشاعتِ دین میں بسر کی۔[۱]
[۱۔ عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت، ص۴۰۱ تا ۴۰۴]
تعلیم و تربیت:
چونکہ حضرت مولانا عبدالرشید مدظلہ کے والد ماجد خود ایک جلیل فاضل تھے، اس لیے آپ نے ابتدائی کتب درسِ نظامی کافیہ تک اپنے والد محترم قدس سرہ کے پاس پڑھیں۔ ایک سال مدسہ ریاض الاسلام (جھنگ) میں مولانا غلام فرید قریشی سے اکتسابِ فیض کیا۔ علاوہ ازیں جامعہ محمدیہ جھنگ اور اوچھالہ تحصیل خوشاب (ضلع سرگودھا) میں بھی حضرت مولانا احمد شاہ اور حضرت مولانا قطب الدین (آپ کے والد نہیں) سے بھی پڑھتے رہے۔
کتب احادیث کا درس لینے کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے اور محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سرار احمد قدس سرہ سے دورۂ حدیث کرنے کے بعد ۱۹۴۵ء میں سندِ فراغت و دستارِ فضیلت حاصل کی۔
تدریس:
آپ نے فراغت پاتے ہی تدریسی زندگی کا آغاز فرمایا، چودہ سال تک دارالعلوم نقشبندیہ جماعتیہ علی پور شریف (ضلع سیالکوٹ) میں پڑھاتے رہے۔ ایک سال ۱۹۵۸ء کو جامعہ رضویہ فیصل آباد میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی موجودگی میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریسی فرائض سرانجام دیے۔
۱۹۵۹ء میں آپ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد قطب الدین جھنگوی کا انتقال ہوگیا، جس کی بناء پر آپ کو گھر آنا پڑا۔ جنوری ۱۹۶۰ء میں آپ نے اپنے والد مکرم کی طرف نسبت کرتے ہوئے جامعہ قطبیہ رضویہ کے نام سے ایک دارالعلوم قائم کیا اور اس کا انتظام و انصرام (اور تدریس بھی) اپنے ذمہ لیا۔
۱۹۷۲ء سے آپ سنی رضوی جامع مسجد فیصل آباد میں خطابت کے فرائض اسرانجام دے رہے ہیں۔
اہلِ باطل سے مناظرے کی قوت آپ کو اللہ تعالیٰ نے وراثتاً عطا فرمائی ہے، چنانچہ آپ نے شیعہ مکتبۂ فکر کے بہت بڑے مناظر اسماعیل کے تلمیذ تاج حیدری کو موضع سو ہادہ میں مسئلہ خلافت پر مناظرہ کرکے شکست دی۔
اسی طرح اسماعیل کے دیگر شاگردوں سے جامعہ رضویہ میں مسئلہ ماتم پر مناطرہ ہوا اور آپ نے دندان شکن جواب دے کر ان کو مبہوت کیا۔
آپ نے روافض کے ردّ میں کچھ مضامین بھی تحریر کیے جو ابھی تک مسودہ کی شکل میں ہیں اور زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوسکے۔
آپ ۱۹۴۶ء میں حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضۂ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے مشرف ہوئے۔
بیعت:
آپ کو حضرت محدثِ اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ سے شرف بیعت حاصل ہے۔
چند مشہور تلامذہ:
آپ کے چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ مولانا محمد شریف، ڈسکہ
۲۔ مولانا ابوداؤد محمد صادق، گوجرانوالہ
۳۔ صوفی محمد بخش، مدرس جامعہ رضویہ فیصل آباد
۴۔ مولانا اللہ بخش اویسی، کراچی
۵۔ مولانا غلام سیرانی، رحیم یار خان
۶۔ مولانا محمد عجیب، جھنگ صدر
اولاد:
آپ کے تین صاحبزادے (صاحبزادہ ضیاء المصطفےٰ، صاحبزادہ عطاء المصطفےٰ اور صاحبزادہ انوار المصطفےٰ) اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔ ان میں سے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں قرآن پاک کی حافظ ہیں۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
[۱۔ یہ تمام کوائف ۱۸؍جولائی ۱۹۷۷ء کو عرس محدثِ اعظم پاکستان رحمہ اللہ کے موقع پر مولانا محمد فاضل صمدانی، متعلم جامعہ رضویہ فیصل آباد کے ذریعے حاصل ہوئے۔ (مرتب)]