آپ تھانیسر کے رہنے والے اور شیخ نصیرالدین محمود دہلوی کے مریدوں میں سے تھے، علوم ظاہری کے علاوہ بڑے فضل و کمال کے مالک تھے، اگرچہ مولانا خواجگی کے ساتھ آپ کے برادرانہ تعلقات تھے مگر جب انہوں نے دہلی کو ترک کیا تو آپ نے ان کا ساتھ نہیں دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ امیر تیمور گورگانی کی بڑی عظیم الشان فوج نے دہلی پر حملہ کرکے لوٹ مار کا بازار خوب گرم کیا، اس کس مپرسی کے عالم میں مولانا احمد کے متعلقین کو امیر تیمور گورگانی کے لشکریوں نے گرفتار کیا بعد میں جب فتنہ فساد ختم ہوا تو آپ گورگانی کے درباری مقرر ہوگئے، امیر تیمور کے دربار میں مولانا برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ کے پوتے شیخ الاسلام اور آپ کے درمیان میں ادھر اُدھر کی گفتگو ہوا کرتی تھی، ایک دن امیر تیمور نے شیخ الاسلام کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے مولانا احمد سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ مولانا برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ کے پوتے ہیں۔ مولانا احمد نے فرمایا کہ ان کے دادا نے ہدایہ کے اندر کئی جگہ غلطیاں کی ہیں، اگر کوئی ایک آدھ غلطی ہوتی تو کوئی حرج کی بات نہ تھی۔ اس پر شیخ الاسلام نے فرمایا کہ مولانا ذرا بتائیے تو سہی کہ میرے دادا نے ہدایہ میں کہاں کہاں غلطی کی ہے اور اس کو دلائل سے ثابت کیجیے، اس پر مولانا نے اپنے بیٹوں اور تلامذہ سے فرمایا کہ صاحب ہدایہ کی غلطیوں پر مفصل تقریر شروع کردیں لیکن امیر تیمور نے صاحب ہدایہ کی عزت و ناموس کی حفاظت کی غرض سے اس مجلس کو کسی دوسرے موقع پر ملتوی کردیا، اس کے بعد مولانا احمد دہلی سے بمع اہل و عیال کے رحلت فرماکر مستقل سکونت کے لیے کالپی تشریف لے گئے اور مولانا خواجگی سے پھر سے برادرانہ تعلقات وابستہ ہوگئے، اسی زمانے میں مولانا احمد اور مولانا خواجگی کے روحانی بیٹے اور شاگرد قاضی شہاب الدین کے مابین نزاع کی صورت پیدا ہوگئی، قاضی شہاب الدین نے مولانا احمد کے بیٹوں کی مولانا خواجگی سے شکایت کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی تو مولانا خواجگی نے قاضی صاحب کی شکایت کے جواب میں شیخ سعدی کے یہ دو شعر لکھ کر دیے۔
اشعار
اے بیش ازانکہ در قلم آید ثنائے تو
واجب براہل مشرق و مغرب ثنائے تو
اے در بقائے عمر تو نفع جہانیاں
باقی مبادآنکہ نخواہد بقائے تو!
آپ کی قبر کالپی کے قلعہ میں ہے لوگ زیارت کرکے برکت حاصل کرتے ہیں مولانا احمد نے ایک نعتیہ قصیدہ بھی لکھا ہے جس میں آپ نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے ہیں، اس میں سے چند ابیات لکھے جاتے ہیں۔
اطارلبی حنین الطائر الفرد
وھاج لوعۃ قلبی التایہ الکمدٖ
لیت الھدیٰ لم تکن بینی و بینکم
ولیت حبل و دادی غیر منعقد
مشتابھا و عیون البین راقدۃ
والقلب فی جذل والدھر فی رفد
ولیس والدین والدنیا و آخرتی!
سوی جناب رسول اللہ معتمد
بر رؤف سید سند
سھل الفناء رحیب الباع والصفد
اور اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات محامد اور معجزات کو بھی آپ نے ابیات میں شمار کیا ہے، اور ان کے آخر میں فرماتے ہیں۔
یا افضل الناس من ماضی و موقنق
واکرم الناس من حرو وعبدٖ
افدیک بالروح والقلب والمشرق معاً
والنفس والمال والاھلین والولدٖ
یا حیاتی و یاروحی ویا جسدی
یا فوادی و یا ظھری ویا عضدٖ
یا رب صل وسلم دائماً ابدا
علی النبی نبی الحق والرشدٖ
وما تعز و غربد علی فتن!
غض الادومۃ مخضل وملتبدٖ
اخبار الاخیار