آپ اودھ کے بڑے عالموں میں شمار کیے جاتے تھے، بڑے ولی اللہ، پاکیزہ روش اور معاملے میں صاف تھے، اودھ کے شیخ الاسلام مولانا فریدالدین سے جب آپ تفسیر کشاف پڑھتے تھے تو اودھ کے دیگر علماء مثل مولانا شمس الدین یحییٰ سماع کیا کرتے تھے، آپ کا لباس علماء کی مانند ہوتا تھا مگر حقیقتاً آپ تصوف کے اوصاف سے موصوف تھے، آپ اگرچہ اپنے شیخ خواجہ نظام الدین اولیاء کے باقاعدہ خلیفہ مجاز تھے مگر پھر بھی لوگوں کو بیعت نہیں فرمایا کرتے تھے اور اکثر و بیشتر یہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر خواجہ نظام الدین اولیاء حیات ہوتے تو میں آپ کا عطا کردہ خلافت نامہ آپ کو واپس کرکے عرض کرتا کہ یہ دینی کام میں نہیں سرانجام دے سکتا، آپ کو اپنے شیخ خواجہ نظام الدین اولیاء سے بے حد عقیدت و محبت تھی، نیز یہ بات بھی مشہور ہے کہ آپ نے اپنے مرشد کے ملفوظات فوائد الفواد کو آخری عمر میں خود نقل فرمایا تھا، وہی اپنے پاس رکھتے اور اسی کا مطالعہ کیا کرتے تھے، لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ حضرت! ماشاء اللہ! آپ کے پاس ہر فن کی کتب کا ایک ذخیرہ موجود ہے مگر آپ فوائد الفواد کے علاوہ اور کسی کتاب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ سلوک اور دیگر فنون کی کتب سے جہاں بھرا ہوا ہے لیکن میرے مرشد کے ملفوظات مفرح روح ہیں جن میں میری نجات کا سامان ہے یہ اور کہیں نہیں ملتے۔
مرا نسیم تو باید صبا کجا است کہ نیست
کجاست زلف تو مشک خطا کجاست کہ نیست
ترجمہ: (مجھے تو تیری ہوا چاہیے، بادِ صبا تو ہر جگہ ہے، خوشبو تو ہر جگہ میسر آسکتی ہے مگر مجھے تو تیری زلف مشکیں درکار ہے) آپ کی قبر چبوترہ یاراں کے قریب ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمت نازل کرے۔
اخبار الاخیار