حضرت مولانا الحاج گل محمد شہداد کوٹی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
علامۃ الزماں مولانا الحاج گل محمد بن شیخ الاسلام علامہ مفتی نور محمد شہداد کوٹی قدس سرہ الاقدس کنڈو، تحصیل بھاگ ، ریاست قلات ( بلوچستان ) میں ۲۱، رجب المرجب ۱۲۴۰ھ کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
کنڈو اور شہداد کوٹ میں اپنے والد ماجد کے پاس جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں تحصیل کی۔ اس وقت آپ کی عمر بائیس ( ۲۲) برس تھی۔
بیعت:
سلسلہ عالیہ قادریہ میں عمدۃ العارفین مولانا میاں غلام حیدر قادری قدس سرہ ( درگاہ کٹبار شریف بلوچستان ) کے دست بیعت ہوئے۔
درس و تدریس :
آپ کے والد ماجد کنڈو سے شہداد کوٹ نقل مکانی کر کے آئے تھے لہذا والد ماجد کی قائم کردہ درسگاہ میں تمام سندھ میں علم پھیلا ۔ سندھ میں کوئی ایسا گوٹھ نہیں تھا جس میں آپ کا شاگرد یا پھر اس کا شاگرد نہ ہو۔
ایک روایت کے مطابق آ پ کے فارغ التحصیل شاگردوں کی تعداد ۴۸۶ چار سو چھیا سی ہے اور وہ تمام اپنے وقت میں بڑے مدرس اور علامہ تھے۔ ( مقالات قاسمی )
تلامذہ :
آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست میں سے چند نام معلوم ہو سکے وہ درج ذیل ہیں :
٭ برادر اصغر مفتی اعظم علامہ مولانا خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی
٭ علامہ مولانا داد محمد قاضی آف مکران ( بلوچستان )
٭ مولانا علامہ عبدالحکیم افغانی ( کابل ، افغانستان )
٭ جامع العلوم علامہ محمد حسن قریشی ( حیدر آباد سندھ )
٭ مفتی اعظم علامہ مخدوم حسن اللہ صدیقی ( پاٹ شریف ضلع دادو )
سفر حرمین شریفین :
آپ کو حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول اکرم ﷺ کی حاضری و زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔
شاعری :
آپ فارسی زبان کے بلند پایہ شاعر بھی تھے لیکن صد افسوس اپنوں کی غفلت اور لاپرواہی کے سبب علمی و ادبی سرمایہ ضائع ہو گیا، جوہر یوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے گوہر ، نایاب ہی رہ گئے، ان کی تاریخ کو اپنوں نے ہی ملیامیٹ کر دیا۔ شاداب شہدا ٹ اور تجلیات صدیقیہ کے مصنفین نے اپنی کتب میں آپ کا تذکرہ تک نہیں کیا کس قدر افسوس کی بات ہے ، کس قدراحسان فراموشی ہے۔ محترم منظور احمد حلیمی نے آپ پر مختصر مضمون لکھ کر آپ کے حالات کو محفوظ کیا ہے رب کریم جزائے خیر عطا فرمائے ۔ انہوں نے آپ کا ایک شعر نقل کیا ہے جو کہ حضرت ا میر خسرو نظامی چشتی علیہ الرحمہ ( دہلی ) کی رباعی کی تضمین میں کہا تھا:
می سازم، می سازم، چوں خون بکباب اندر
می گویم می خندم چوں برق سحاب اندر
کرامت :
حاجی سائیں داد مستوئی بلوچ ابتدا میں علامہ گل محمد شہداد کوٹی کا سخت مخالف تھا بلکہ وہ اہل علم سے چڑ کھا تا تھا، ایک بار ایک شخص نے آکر آپ سے عرض کی کہ قبلہ ! آپ کا پڑوسی سائیں داد نے میرے دو سو (۲۰۰) روپے ہضم کر لئے ہیں لہذا آپ ان سے دلوادیں ۔ آپ نے انہیں بلوانے کے لئے تین بار خادم بھیجا لیکن اس نے ہر بار ایک ہی جواب دیا کہ ’’میں ملا کے پاس ہر گز نہیں جاوٗ ں گا‘‘۔
چوتھی بار آپ نے یہ کہلا کر بھجوادیا کہ ،’’اس ملا کے دروازے پر تمہارے بار بار چکر لگیں گے‘‘۔
اور ایسا ہی ہواآپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفا ظ پورے ہوئے کہ اسی رات سرد موسم کے باوجود آدھی رات کو سائیں داد چیختا چلاتا ہوا آپ کے مدرسہ میں پہنچا اور بوریہ نشین درویش حضرت گل محمد سے اپنی گستاخی کی معافی حاصل کی اور اس کے بعد آخر عمر تک حضرت کے صادق مرید و سچے خادم کی طرح خدمت میں ہی رہا ۔ انتقال کے وقت اولاد کو وصیت کرتے ہوئے کہا کہ اس درگاہ کی خدمت و محبت کو کبھی نہیں چھوڑنا اور بزرگوں کے عرس پابندی و عقیدت سے کرتے رہنا ۔
وصال:
علامۃ الزماں مولانا گل محمد شہداد کوٹی نے ۲۷، ذوالحجہ ۱۳۰۶ھ؍ جولائی ۱۸۸۹ء کو ۶۶سال کی عمر میں انتقال کیا۔ برادر اصغر شاگرد ارشد و جانشین مفتی اعظم غوث الزماں خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی قدس سرہ الاقدس نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے اور درگاہ شریف صدیقیہ شہداد کوٹ ( ضلع لاڑکانہ سندھ ) میں تدفین ہوئی دربار مقدس ہر دور میں مرجع خلائق رہی ہے اور رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ( ماخوذ : مہران سوانح نمبر مطبوعہ ۱۹۵۷ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)