آپ علی بن اسحاق دہلوی کے فرزند تھے اور شیخ فریدالدین گنج شکر کے خادم اور خلیفہ اور داماد تھے، اپنے زمانے کے بہت بڑے بزرگ تھے۔ زہد و تقویٰ فقر اور عشق میں اپنی مثال خود تھے، بچپن کے زمانے میں آپ نے دہلی میں علوم حاصل کیے، طلباء میں آپ کی خوش مزاجی اور حاضر دماغی مشہور تھی، تحصیل علم کے بعد جو چیز شرفاء اور دانشور لوگ سیکھا کرتے تھے آپ نے بھی وہ چیز سیکھی، اس سے فراغت کے بعد بخارا کا رخ فرمایا، چونکہ پاک پتن راستہ میں پڑتا تھا وہاں شیخ فریدالدین گنج شکر کے کمالات سن کر ملاقات کا اشتیاق ہوا، اس کے بعد آپ نے ایک آدمی کو تیار کیا کہ وہ آپ کی شیخ فریدالدین سے ملاقات کرادے، چنانچہ آپ نے جب شیخ فریدالدین کی ملاقات کی تو اپنے تمام علوم و فنون ظاہر یہ کو آپ کے پہلو میں دفن کردیا اور ان کے جمال و کمال کے شیدائی ہوگئے، شیخ فریدالدین نے مولانا بدرالدین اسحاق کی قابلیت اور صلاحیت کو دیکھ کر اپنی خدمت اور دامادی کے لیے منتخب کرکے بہترین طور پر تربیت دی اور خرقہ خلافت عطا فرمایا، لوگوں میں مشہور ہے کہ آپ اکثر و بیشتر اوقات میں روتے ہوئے نظر آیا کرتے تھے، ایک دن یہ شعر پڑھ رہے تھے
پیش صلابت غمش روح نطق نمی زند
اے زہزار صعوہ کم پس تو نواچہ مے زنی
ترجمہ: (اس کے عشق کے غم کی وجہ سے روح تک نہیں بولتی، اے انسان تیری ہستی ایک ممولا کے ہزارویں حصہ سے بھی کمتر ہے پھر تونالہ کیوں کرتا ہے) اس شعر کے ذوق میں پورا دن عالم تحیر میں گزار دیا، جب مغرب کا وقت ہوا تو شیخ نے آپ کو امام بنایا تو بجائے قرأت کے آپ نے یہی شعر پڑھنا شروع کیا اور فوراً بے ہوش ہوکر گر پڑے، جب ہوش میں آئے تو شیخ نے پھر انہیں کو امام بنایا۔
’’اسرار اولیاء‘‘ آپ کی تصنیف ہے، جس میں آپ نے شیخ گنج شکر کے ملفوظات کو جمع کیا ہے، اس کے علاوہ بھی آپ نے ایک کتاب نظم کے اندر علم صرف میں لکھی ہے جس میں تبحر علمی اور فصاحت کو خوب ظاہر کیا ہے، اس رسالہ کے آخر میں جو اشعار لکھے گئے ہیں، وہ سیرالاولیاء میں بھی نقل کیے گئے ہیں، اسرار الاولیاء کے خاتمے پر شیخ نظام الدین کی خدمت میں التماس کے عنوان سے چند سطریں عربی زبان میں لکھی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
’’الامام المجاہد حضرت نظام الدین محمد بن احمد صاحب خصائل پسندیدہ و عادات برگزیدہ نے مجھ سے یہ نظم سنی، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو آپ کے خصائل و آثار پر عمل کرنے کی توفیق دے آپ کے فضائل و انوار عام ہیں، میں صفت شاعری میں تہید ست ہوں، لیکن بحکمِ عالی نظم پیش کرنا ضروری تھا، اور میری یہ سعی ایسی ہے جیسے سلیمان علیہ السلام کے سامنے چیونٹی کی سعی۔
جناب عالی! نے اپنے علو مرتبت کے باوجود اس فقیر سے نظم کی فرمائش کی جو حسب الحکم پیش خدمت ہے، میں کمزور، فقیر بدرالدین اسحاق بن علی دہلوی ان سطور کے ذریعہ امیدوار ہوں کہ میرے لیے صلاحیت کی دعا فرمائی جائے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، آپ کا مزار پاک پتن کی جامع مسجد کے صحن میں ہے، جہاں لوگ اکثر و بیشتر یاد الٰہی کیا کرتے ہیں۔
اخبار الاخیار