حضرت مولانا بزرگ علی مارہروی قدس سرہٗ
حضرت مولانا بزرگ علی ابتدا میں بہت بد شوق تھے،پڑھنے لکھنے میں قطعی جی نہیں لگاتے تھے،جتنی زیادہ تاکید ہوتی،اُنتی ہی بے رغبتی دکھاتے، آپ کے والد حسن علی
صاحب اچھے میاں قدس سرہٗ کے مرید تھے،ایک دن ان کو لے کر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے،اور ان کی بد شوقی کا ذکر کر کے دعا کی التجا پیش کی،حضرت نے فرمایا،تم بد
شوق کہتےہوِحالانکہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ اپنے زمانے کا بڑا عالم ہوگا،اور دستار فضیلت باندھے گا،حضرت کے یہ الفاظ مستجاب ہوئے،مولانا نے تمام مشاغل ترک
کردیئے،ہر وقت پڑھنے اور مطالعۂ کتب میں مصروف رہنے لگے،ابتدائی درسیاتِ نظامی حضرت مولانا شاہ سلامت اللہ کشفی سے پڑھی سراج الہند حضرت شاہ عبد العزیزی محدث
دھلوی سے حدیث کا در کیا،آگرہ وکلکتہ کے مدارس میں برسوں درس دینے کے بعد علی گڑھ میں مصنف کے عہدے پر فائز ہوئے،جامع مسجد میں محمد شاہی وزیر ثابت خاں کے قائم
کردہ مدرسہ کا احیاء کیا،مفتی عنایت احمد صاحب نے یہیں پر آپ سے ریاضی پڑھی، ۱۲۶۲ھ میں بمقام ٹونک راج انتقال ہوا،
(برکات مارہرہ استذ العلما)