مولانا فیض احمدعثمانی، حضرت مولانا حکیم غلام احمد عثمانی کے بڑے صاحبزادے ۱۲۲۳ھ میں پیدا ہوئے، انہوں نےاپنے ماموں حضرت مولانا شاہ فضل رسول بد ایونی سے علوم و فنون کی تکمیل کی، اپنے نانا حضرت شاہ عین الحق عبدالمجید قدس سرہٗ سے مرید ہوئے،۔۔۔ مولانا فیض احمد نہایت ذہین وذکی تھے، مولانا شاہ فضل رسول صاحب فرماتے تھے کہ فیض احمد ہمشیرہ زادہ کمالات انسانی کے جامع اور علوم مروجہ میں اپنے معاصرین پر فائق تھے، مولانا آگرہ میں سر رشتہ ار تھے، سلسلۂ ملازمت کے ساتھ درس و تدریس کا مشغلہ بھی تھا، اکمل التاریخ میں مذکور ہے، اہل حاجت کی دستگیری کےلیے، وطن کے اہل غرض مطلب بر آری کے لیے روزانہ حاضر خدمت ہوتے، ہر وقت مطیخ گرم رہتا، فقراء سے محبت، غرباء سے الفت، طلبہ کے شیدائی، شائقین علم کے فدائی تھے، شاگردوں کی تمام ضروریات کے خود متکفل ہوتے تھے، شاعری کا مذاق سلیم تھا، کلام میں حسنِ نصاحت اورنگِ بلاغت دونوں موجود ہیں، آپ کا کلام اُردو، فارسی ، عربی تینوں زبان میں ہے۔
آپ جنگ آزای کے عظیم ترین مجاہدین میں تھے، آپ ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی اور حضرت مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی سے خصوصی روابط تھے، بہادر شاہ ظفر کی خود مختاری کے اعلان کے لیے مولانا دہلی گئے، بہادر شاہ کی مدد کے لیے جزل بخت خاں کی سر کردگی م یں رو ہیلوں کی حمایت بھی دہلی پہونچ گئی تھی اور جذبہ وفاداری سے سر شارہوکر مردانہ وارداد شجاعت دے رہی تھی، جزل بخت خاں کے مشورہ سے علامہ فضل حق نے بعد نماز جمعہ جامع مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت پر آتش بار تقریر کی، اور اس کے لیے فتوئ جہاد مرتب کیا، مفتی صدر الدین خاں، ڈاکٹر وزیر خاں، سید مبارک شاہ رامپوری اور صاحب ترجمہ نے اس پر اپنے دستخط کیے، اس کے علاوہ مختلف مقامات پر لڑائی میں شرکت کہ آپ نے ڈاکٹر وزیر خاں کے ساتھ حجاز مقدس کا سفر کیا، لیکن یہ غلط معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ آپ کے ماموں حضرت سیف اللہ المسلول قدس سرہٗ نے آپ کی تلاش میں ممالک عربیہ کا سفر کیا، اور قسطنطنیہ تک تشریف لے گئے مگر آپ کا سُراع نہ ملا۔
آپ کا نکاح حضرت سیف اللہ المسلول کی صاحبزادی سے ہوا تھا جن سے حضرت مولانا حکیم سراج المحقق پیدا ہوئے، مولانا فیض احمد کے تلامذہ میں حضرت مولانا شاہ نور احمد استاذ العلماء کے منصب پر فائز تھے۔
(اکمل التاریخ، مولانا فیض احمد)