حضرت مولانا فخرالدین زرادی
حضرت مولانا فخرالدین زرادی (تذکرہ / سوانح)
آپ بڑے ولی اللہ ، ذی علم، متقی، صاحب ذوق و عشق اور خواجہ نظام الدین کے خلیفہ تھے، امور شرعیہ میں بڑے مضبوط تھے، اوائل عمر میں مولانا فخر الدین ہانسوی سے دہلی میں تعلیم حاصل کی، اپنی ذہانت اور فصاحت بیانی کی وجہ سے اہل شہر کےممتاز لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے، آخر کار خواجہ نظام الدین اولیاء کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور سر منڈوادیا، طالب علموں کے زمرہ سے نکل کر درویشوں کی جماعت میں داخل ہوگئے اور غیاث پور میں رہنے لگے، اپنے مُرشد کے انتقال کے بعد دریائے جمنا کے کنارے ایک محلہ میں مقیم ہوئے، جسے اب فیروز آباد دہلی کہتے ہیں، کچھ دنوں تک حوض علائی پر ٹھہرے رہے اور ایک مدت تک بسنا بند میں عبادت الٰہی کرتے رہے جو پہاڑوں کے وسط میں ہے اور آپ کے زمانہ میں وہ علاقہ جنگل و بیابان اور شیروں کی آماجگاہ تھا، اس کے بعد خواجہ معین الدین چشتی کی زیارت کے لیے اجمیر تشریف لے گئے، وہاں سے ہوتے ہوئے شیخ فریدالدین شکر گنج کی زیارت کے لیے پاک پٹن گئے، غرض یہ کہ مولانا فخرالدین زرادی نے عمر کا بیشتر حصہ سفر ہی میں بسر کیا، جنگلوں اور بیابانوں میں رہ کر عبادت کرتے اور ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔
مولانا فخر الدین زرادی نے ایک مرتبہ خواجہ نظام الدین سے دریافت کیا کہ تلاوت قرآن افضل ہے یا ذکر اللہ؟ خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا کہ ذکر اللہ کرنے والا اپنے مقصود تک جلدی پہنچ جاتا ہے لیکن زوال کا خطرہ دامنگیر رہتا ہےا ور قرآن کی تلاوت کرنے والا اگرچہ اپنے مقصود تک بدیر پہنچتا ہے مگر اس میں زوال کا خطرہ نہیں۔
منقول ہے کہ شیخ نصیرالدین فرمایا کرتے تھے کہ جو چیز ہم پر ایک یا دو ماہ میں کھلی مولانا فخرالدین زرادی اسے ایک گھنٹہ ہی میں حاصل کرلیا کرتے تھے جس وقت دہلی کے رہنے والے لوگوں کو دیوگیر لے جایا جا رہا تھا مولانا فخرالدین زرادی بھی وہاں گئے، اور وہاں سے خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے اور وہاں سے بغداد جاکر کتب حدیث کو بڑی تحقیق اور محنت سے پڑا، پھر اپنے قدیم وطن دہلی ہی میں آنے کے لیے روانہ ہوئے، واپسی میں ایک کشتی پر سوار ہوئے وہ راستہ میں ڈوب گئی اور مولانا فخرالدین زرادی اسی حادثہ میں شہید ہوگئے۔
سلطان محمد تغلق بادشاہ اہالیان دہلی کو دیوگیر اس لیے بھیج رہا تھا کہ ترکستان اور خراسان پر قبضہ کرسکے اور وہاں سے چنگیزیوں کو نکال دے چنانچہ سلطان نے دہلی کے تمام بڑے بڑے امراء کو حکم دیا کہ وہ حاضر ہوں اور ایک بڑا خیمہ لگواکر اس میں ایک منبر رکھوایا، تاکہ اس پر چڑھ کر لوگوں کو کافروں سے جہاد کرنے کی ترغیب دی جائے اسی روز مولانا فخرالدین زرادی، شیخ شمسالدین یحییٰ اور شیخ نصیرالدین دہلوی کو طلب کیا خواجہ قطب الدین وزیر تعلیم جو خواجہ نظام الدین کے مرید اور مولانا فخرالدین زرادی کے تلمیذ و شاگرد تھے وہ مولانا کو جملہ معززین اہل شہر سے پہلے ہی دربار شاہی میں لے آئے مولانا بار بار فرما رہے تھے کہ اس بادشاہ کے سامنے میں اپنا جانا مناسب نہیں سمجھتا، میں کسی طرح بھی اس سے موافقت نہ کروں گا، غرض یہ کہ جب مولانا کی سلطان سے ملاقات ہوئی تو خواجہ قطب الدین وزیر تعلیم آپ کے جوتے بغل میں دبائے کھڑے تھے، بادشاہ نے یہ کیفیت دیکھ لی مگر خاموش رہا اور پھر مولانا سے باتیں کرنے لگا، دوران گفتگو اس نے مولانا سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملعوان چنگیزیوں کو ختم کردیں، کیا آپ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں گے؟ مولانا نے فرمایا ان شاء اللہ تعالیٰ، بادشاہ نے کہا یہ تو کلمۂ شک ہے مولانا نے فرمایا مستقبل کے لیے یونہی ہوتا ہے، بادشاہ یہ بات سننے کے بعد پیچ و تاب کھاتے ہوئے مولانا سے کہنے لگا، ہمیں کچھ پند و نصیحت فرمائیں تاکہ اس پر عمل کیا جاسکے مولانا نے فرمایا کہ غصہ پیتے رہو۔
بادشاہ، کون سا غصہ؟
مولانا، اس سے پہلے سات سلطان غصہ کی نذر ہوچکے ہیں۔
بادشاہ، اپنے خادموں کو حکم دیتا ہے کہ کھانا لاؤ، جب دستر خوان بچھایا گیا تو مولانا نے مجبوراً تھوڑا سا کھایا، پھر دستر خوان اٹھالینے کے بعد ان تمام آنے والے حضرات کے لیے ادنیٰ لباس اور ایک ایک ہزار روپے کی مالیت کے سونے کے ٹکڑے لائے گئے شیخ نصیرالدین محمود اور مولانا شمس الدین یحییٰ اور دیگر بزرگوں نے یہ تحائف قبول کیے لیکن مولانا فخرالدین زرادی کا ایک ہزار روپے اور لباس کا تحفہ خواجہ قطب الدین وزیر تعلیم نے اس غرض سے اپنے ہی پاس رکھ لیا کہ یہ تو اس کو ہاتھ نہیں لگائیں گے جس کی وجہ سے مولانا کی عزت میں فرق آئے گا، جب تمام بزرگ چلے گئےتو بادشاہ نے خواجہ قطب الدین وزیر تعلیم کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ اے بدبخت ایلچی تونے یہ کیا ناجائز حرکتیں کیں اور میری تلوار کی زد سے فخرالدین کو بچالیا، خواجہ قطب الدین دبیر مملکت نے کہا کہ اے بادشاہ! وہ میرے استاد اور شیخ کے خلیفہ ہیں مجھے ان کی شان و شوکت باقی رکھنا ضروری تھی بادشاہ نے کہا ان کفریہ عقائد سے تائب ہوجاؤ ورنہ تمہیں بھی قتل کردوں گا، خواجہ قطب الدین نے فرمایا کہ اگر حکومت مجھے میرے مخدوم کی وجہ سے قتل کرے تو میں اسے اپنی خوش نصیبی اور خوش بختی تصور کروں گا، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار