حضرت صدرالمشائخ مولانا فضل عثمان فاروقی مجددی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مجاہد ملت ، صدر المشائخ حضرت مولانا پیر فضل عثمان مضددی ابن حضرت نور المشائخ مولانافضل اعمر المعروف بہ ملا شور بازار (متولد ۱۳۰۲ھ؍۱۸۸۵ئ) قدس سرہما ماہ جمادی الاولیٰ، اگست(۱۳۱۹ھ؍۱۹۰۱ئ) میں شور بازار کابل خاندان مجددیہمیںپیداہوئے آپ کے جد امجد سلسلۂ عالیہ مجددیہ کے بر گزید ہ بزرگ حضرت مولانا قیوم قدس سرہ نے آپ کی پرورش فرمائی ۔ سن شعور کو پہنچنے پر شور بازار کابل کہ مشہور مدرسہ مجددیہ میں داخل ہوئے اور اپنے دور کے ممتاز افاضل سے علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔ منازل سلوطے کرنے کے لئے والد گرامی حضرت نور المشائخ کے دست اقدس پر طریقہ نقشبندیہ مجددیہ معصومیہ میں بیعت ہوئے اور جلد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔
دوسری جنگ عظیم میں والد ماجد کے ہمراہ جنوبی افغانستان میںتل کے مقام پر انگریزوں کے خلاف عملی جہاد میں حصہ لیا۔ ان حضرات کی برکت اور فضل ایزدی سے انگریزوں کو شکست تسلیم کرنا پڑی اور افغانستان کو حقیقی آزادی نصیب ہوئی ۔ جب بچہ سقہ نے غازی امان اللہ کے خلاف بغاوت کی تو حضرت صدر المشائخ پیر فضل عثمان، افغانستان کے شمالی علقاہ ترکستان میں مقیم تھے۔ آپ نے باغیوں کے خلاف جزل غلام نبی خاں سے مکمل تعاون کیا ترکستان میں بچہ سقہ کے گور نر عطا محمد نے حضرت صدر المشائخ کو قید کردیا اور جبرو تشددکے ذریعے بچہ سقہ کی حمایت پر مجبور کیا، آپ نے واضح طورپر فرمایا:۔
’’وہ لڑیاور غاصب کو کسی قیمت پر بھی مسلمانوں کا بادشاہ تسلیم نہیں کریں گے ، بد طینت بچہ سقہ کے سامنے کبھی بھی اپنا سرنہیں جھکائیں گے ‘‘[1]
گورنر عطا محمد نے آپ کے ناقابل شکست خیالات سے آگاہ ہو کر پھانسی کا حکم دے دیا اسی اثنا میں جنرل غلام نبی خاں نے زبر دست حملہ کر کے مزار شریف، بلخ اور ترکستان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح آپ بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہے، چند دن غازی امان اللہ نے اقتدار سے دستبردار ہونے کا پیغام بھیجد یا اس لئے حضرت صدر المشائخ افغان معززین کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ تا شقند کا عزم کیا۔ حکومت روس نے یہ پابندی عائد کردی کہ آپ تا شقند کے علاوہ نہ تو کسی جگہ قیام کر سکتے ہیں اور نہ نقل و حرکت کی اجازت ہے ۔آپ نے اہل و عیال سمیت آٹھ ماہ اس پابندی میں گزارے ، اتنے میں نادر شاہ نے بچہ سقہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر بادشاہت قائم کرلی اور آپ کو کامل بلا کر وزارت انصاف (عدلیہ) میں اصلاح امور شرعیہ کا رکن نا مزد کردیا۔ ب آپ نے محسوس کیا کہ وزارت اپنے فرائض کمال حقہ ادا نہیں کر سکتی تو مستعفی ہو کر ارشاد و تبلیغ کا کام شروع کردیا۔
۱۹۴۸ء میں ج یہودیوں نے فلسطین کے عرب مسلمانوں پر حملہ آور ہ کر انہیں بے دخل کرنا شروع کیا تو حضرت صدر المشائخ نے اپنے والد ماجد کے ساتھ مل کر پورے افغانستان کا دورہ کیا اور لاکھوں روپے جمع کر کے مفتیٔ اعظم فلسطین سید امین الحسینی کے تو سط سے مظلوم مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے لئے بھجوائے۔
حضرت المشائخ مولانا فضل عمر قدس سرہ نے جب غزنی میں ایک دینی ادارہ نور المدارس کے قیام کا ارادہ کیا تو حضرت صدر المشائخ نے بے پناہ کوشش سے اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور ایک عرصہ تک اس مدرسہ کے نائب صددر رہے۔ تحریک خلافت کے سلسلے میں مولانا محمد علی جواہر اور دوسرے لیڈروں نے افغانستان کا دورہ کیا تو آپ نے پورا پورا تعاون کیا، تحریک پاکستان کی حمایت میں آپ نے تمام مریدوں کو خاس ہدیایات جاری کیں چنانچہ آپ کی تحریک پر قبائلی اور پو ہندہ افغانوں نے کشمری کے محاذ پر بڑھ چھڑ کر حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعدافغانستان اور پاکستانکے درمیان بعض عناصر کے پیدا کردہ اختلافات کو ختم کرنے کے لئے آپ نے مسلسل جدو جہد کی اور کوشش تا حیات جاری رکھی۔
۱۳۷۶ھ؍۱۹۵۶ء میں حج و زیارت سے مشرف ہوئے۔ واپسی پر جب کراچی پہنچے تو حسین شہید سہر وری ، فیروز خاں نون اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسروں نے آپ کا پر تپاک استقبال کیا۔اس موقع پر آپ نے دوران تقریر آزادیٔ کشمیر کا اعلان فرمادیا اور کہا کہ ہم اس تحریک کے لئے کو جاری رکھیں گے۔
بعض مریدن کی خواہش پر آپ نے دہلی،کاٹھیا واڑ ، بمبئی ، کلکتہ او مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور جا بجا عالم اسلام اور افغانستان و پاکستان کے اتحاد پر زور دیا اس دورے سے واپسی پر جب کراچی میں افغانستان کے سفار تخانے میں پاسپورٹ پیش کیا تو سفیر نے حکومت افغانستان کے امتنا عی حکم کی بنا پر پاسپورٹ کی تجدیدیا تو سیع سے انکار کردیا۔ ان حالات میں آپ نے ایک سال کراچی میں قیام فرما کر گلبرگ لاہور میں مستقل رہائش اختیار کرلی،نوسال بعد جب حالات معمول پر آئے تو آپ نے اہل و عیال کو بھی اپنے پاس بلایا۔
مکرمی پروفیسر محمد مسعود احمد مدظلہ نے آپ کے پاکستان میں قیام کا سبب یوں تحریر فرمایا ہے:۔
’’جس زمانے میں افغانستان میں عریا نیت اور غیر شرعی امور کی ترویح ہوئی تو آپ نے سخت مخالف کی چنانچہ اسی وجہ سے آپ ترکوطن پر مجبور ہوئے اور پاکستان میں قیام فرمایا۔۔۔
صدر پاکستان محمد ایوب خاں نے آپ کی بڑی قدر و منزلت کی[2]۔‘‘
۱۹۶۵ء اور۱۹۷۱ء میںجب ہندوستان نے اعلان جنگ کے بغیر پاکستان پر حملہ کیا تو حضرت صدر المشائخ نے اپنے تمام مریدین کو اس جہاد میں شریک ہونے کی تقلین فرمائی چنانچہ انجام دیں ۔ غرض یہ کہ آپ نے اپنی تمام زندگی عام پیروں سے مختلف گزاری اور ہمیشہ اعلائے کلمۃ الحق اور عالم اسلام کے اتحاد کی کوشش کرتے رہے۔ جمیعۃ علماء پاکستان کی ہمیشہ سر پرستی فرماتے رہے ۔ آپ کے مریدین کا ھلقہافغانستان اور پاکستان کے اندر پھیلا ہوا ہے۔
۱۵ رییع الاول، ۲۸ اپریل (۱۳۹۳ھ؍۱۹۷۳ء) کو دن کے ایک بجے البرٹ وکٹر ہسپتال میں اہل سنت کے محبوب رہنما حضرت صدر المشائخ پیر فضل عثمان مجددی قدس سرہ کا وصال ہوا۔ ۱۶ ربیع الاول کو ایک خاص چار ڈ طیارے کے ذریعے آپ کے جسد مبارک کو کامل پہنچا دیا گیا جہاں آپ کے والد ماجد کے مزار انور کے پہلو میں خانقاہ عالیہ مجددیہ ، قلعہ جواد میں دفن کردیا گیا[3]
مولانا سید شریف احمد شرافت مدظلہ العالی نے قطعۂ تاریخ وصال کہا
شد زدنیا چوں سوئے دار الخلد
آں شہنشاہ ذروئہ ثقلین
نسل پاک مجدد سرہند
ابن فضل عمر مہ حسین
آنکہ صدر مشائخ دیں بود
محرم راز سید کونین
فیض و رشدش بہ کابل و لاہور
فخر فاروق و مظہر سبطین
سال ترحیل دے شرافت گفت
’’فضل عثمان،قبلۂ دارین‘‘
ولہٗ ایضاً
بگو تر خیص آں فخر المشائخ
کہ’’محبوب جہاں صدر المشائخ ‘‘
دیگر مادئہ تاریخ
’’حاجی ہاوی غرہ اللہ ‘‘[4]
حضرت مولانا فضل عثمان مجددی رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال کے بعد ان کے فرزند اجمند پیر فضل الرحمن پیر فضل الرحمن مجددی مدظلہ (متولد ۲۲؍ربیع الاول ۱۳۵۴ھ؍ ۱۹۳۵ء) کو مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا سید ابو البرکات قادری مدظلہ العالی نے پاکستان اور افغانستان کے علماء و مشائخ کی متفقہ رائے سے بدر المشائخ کا خطاب دیا اور دستار بندی کرائی[5]
[1] ممتاز الحق مجددی ، سید مولانا: تذکرحیات حضرت صدر المشائخ ، ص ۶۔۷۔
[2] محمد مسعود ، پروفیسر : تذکرہ مظہر مسعود (مطبوعہ کراچی ۱۹۶۹ئ) ص ۴۴۸
[3] یہ تمام حالات’’ تذکرئہ مظہر مسعود ‘‘ کے حوالے کے علاوہ ’تذکرہ حیات حضرت صدر المشائخ فضل عثمان مجددی‘‘ مرتبہ مولانا سید ممتاز الحق مجددی ۔، (مطبوعہ کراچی ، ۹ جولائی ۱۹۷۳ئ) سے ماخوذ ہیں ۔
[4] مکتوب گرامی مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ بنام راقم الحروف۔
[5] ایس ایم ناز : ماہنامہ حکایت (اکتوبر ۱۹۷۵ئ) ص ۱۴۸
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)