غلام علی آزاد بلگرامی
غلام علی آزاد بلگرامی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا غلام علی آزاد بلگرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
غلام علی بن سید نوح واسطی بلگرامی: حسان الہند لقب اور آزاد تخلص تھا، یکشنبہ کے روز ۲۵؍ماہ صفر ۱۱۱۶ھ[1]میں قصبۂ بلگرام علاقہ صوبۂ اودھ میں پیدا ہوئے۔نسب آپ کا امام زید شہید بن امام زین العابدین تک پہنچتا ہے۔ابتداء شعور میں تحصیل علم کا سر رشتہ ہاتھ میں لاکر کتب و رسیہکو ابتاء سے انتہاء تک حلقۂ درس استاز المھققین میر طفیل محمد بلگرامی میں پڑھا اور کتب لغت و حدیث وسیر نبوی و فنون ادب کو میر عبد الجلیل بلگرامی اپنے جد فاس سے اخذ کیا اور عروض وقانی وغیرہ کو اپنے ماموں میر سید محمد سے حاصل کیا اور سند صحیح بخار اور اجازت صحاح ستہ وغیرہ کی شیخ محمد حیات مدنی اور سماعت بعض فوائد علم حدیث کی شیخ عبد الوہاب طنطاوی سے مکہ معظمہ میں حاصل کی۔طنطاوی نے آپ کے اشعار عربی کی ن ہایت تحسین کی اور جب یہ سنا کہ آپ کا تخلص آزاد ہے تو اس کے معنی سمجھ کر فرمایا کہ یا سیدی انت من عتقاء اللہ،اس کے وجواب میں آپ نے فرمایا کہ حضرت کی اس عنایت سے جو اس عاجز کے حق میں مبذول ہوئی ہے،مجھ کو بہت سی امیدیں ہیں، رسم بیعت کی آپ سید لطف اللہ بلگرامی سے عمل میںلائے اور طریقہ چشتیہ رکھتے تھے۔ مدت العمر میں تین سفر کیے،ایک دہلی کی طرف واسطے ملاقات میر عبد الجلیل کے اور وہاں دو سال رہ کر ان سے تربیت پائی،دوسرے سیستان کی طرف جو سندھ میں واقع ہے اور اس کے ضمن میں لاہور و ملتان واُچ و بھکر وغیرہ کو دیکھا اور چار سال اس جگہ رہ کر اپنے ماموں سید محمد کی نہایت خدمت میر بخشیٰ اور وقائع نگاری میں بجالائے۔تیسر اسفر حرمین شفیفین کا ہے اور اس کی روانگی کی تاریخ ’’سفر خیر اور تاریخ معاودت سفر بخیر ہے‘‘حرمین سے معاووت فرماکر اورنگ آباد واقع دکن میں اقامت اختیار کی۔نظام الدولہ رئیسن حیدر آباد آپ کے تلامذہ میں سےتھا۔ جب وہ بعد وفات اپنے باپ کے مسند نشین ہوا تو آپ کے بعض احباب نے آپ کو کہا کہ اب جو رتبہ آپ چاہین اختیار کرلیں۔آپ نے فرمایا کہ میں آزاد ہوا ہوں،بندہ مخلوق نہیں ہوسکتا دنیا ہنر کے ساتھ مکار دکھائی دیتی ہے۔عرفہ اس سے حلال ہے ار زیادہ حرام اور یہ شعر پڑھا ؎
دریں دیار کہ شاہی بہر گدا بخشند
غنیمت است کہ مارا ہمیں بما بخشند
خزانۂ عامرہ میں لکھتے ہیں کہ خواجہ حافظ شیرازی نے ساڑھے تین سو سال پہلے ہی سےمیرے نام اور تخلص کی طرف اس شعر میں اشارہ کیا ہے ؎
فاش میگویم واز گفتہ خود ل شادم بندۂ عشقم وازہر دجہاں آزدم
بندۂ عشق غلام علی کا ترجمہ ہے کیونکہ عشق عبارت حضرت علی مرتضٰی سے ہے جیسا کہ شعرا نے نظم میں باندھا ہے۔آپ کی تصنیفات حسب ذیل ہے، ضوء الدراری شرح صحیح البخاری کتاب الزکوٰ تک عربی میں،شمامۃ العنبر فی ما وردفی الہند من سید البشر،تسلیۃ الفوأد فی قصائد آزاد،سند السعادات فی حسن خاتمۃ السادات،روضۃ الاولیاء دربارۂ حالات مشائخ روضہ جو قلعہ دولت آباد کے قریب واقع ہے۔ید بیضاتذکرہ شعراء،مآثر الکرام تاریخ بلگرام،خزانۂ عامرہ تذکرہ شعراء، سجۃ المرجان فی آثا ہندوستان،غز لان الہند،دیوان فارسی،مثنوی مظہر البرکات ہفت دفتر عربی میں،مرأۃ الجمال قصیدہ مدح سراپائے محبوب میں ایک سو پانچ بیت، دیوان عربی تین ہزار بیت،شفاء العلیل فی اصطلاحات کلام ابی الطیب مثنّٰی،سات دیوان عربی میں المسمی بہ سبع سیارہ اور ان میں قصائد مستزاد مروف و مزدوج اور ترجیع ہیں جو کسی شاعر نے آپ سے پہلے اس قسم کے نظم نہیں کیے اور اہلِ ہند سےکسی کو نہیں سناگیا کہ اس نے عربی میں کوئی دیوان بنایا ہو پس کجاسات دیوان ان دواوین میں آنحضرتﷺکی مدح میں معافی کثیرہ نادرہ ایجاد فرمائے ہیں جو مثل آپ کے شعرائے مفلقین اور فصحائے منہ پھٹوں مں سے کسی کو یہ بات حاصل نہیں ہوئی اور غزل بنانے میں ایک خاص طرز رکھتے تھے جس کو اس فن کے لوگ پہنچانتے ہیں۔وفات آپ کی ۱۲۰۰ھ میں ہوئی اور اورنگ آباد میں دفن کیے گئے۔ ’’شمع لامعہ ایوان ہندوستان‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)