شیخ الاسلام حضرت غلام محمدمحدث گھوٹوی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1302 | جمادى الأولى | |
یوم وصال | 1367 | ربيع الآخر | 27 |
شیخ الاسلام حضرت غلام محمدمحدث گھوٹوی (تذکرہ / سوانح)
شیخ الاسلام حضرت غلام محمدمحدث گھوٹوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:غلام محمد۔لقب:شیخ الجامعہ،شیخ الاسلام،محدث گھوٹوی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: شیخ الاسلام علامہ غلام محمد گھوٹوی بن چوہدری محمد عبداللہ بن صوفی محمد خان بن چوہدری احمدیارخان بن چوہدری پیرمحمدخان بن حضرت بخت جمال خان ۔چوہدری بخت جمال خان ایک مرد ِصالح اورمستجاب الدعوات تھے۔درودشریف کےعامل،اورزبان میں خاص تاثیرحاصل تھی۔آپ کاتعلق "کنگ جٹ"برادری سےہے۔آپ کےننھیال"وڑائچ"قوم سے ہیں۔سلسلہ ٔنسب نوشیرواں عادل بادشاہ تک منتہی ہوتاہے۔قصبہ گھوٹہ ضلع ملتان میں قیام کی وجہ سے"گھوٹوی "معروف ہوئے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت ماہ جمادی الاولی ٰ/1302ھ،مطابق جنوری/1885ءکوموضع "گمرالی" نزد منگووال ضلع گجرات پنجاب،پاکستان میں ہوئی۔
تحصیل ِعلم: حفظ قرآن ،فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں چکوڑی (گجرات ) میں مولانا محمد چراغ سے پڑھیں ،پھر قصبہ گھوٹہ(ضلع ملتان ) میں سیبو یہ زمانہ مولانا حافظ محمد جمال رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو کر قطبی اور میبذی تک کتابیں پڑھیں ۔بعد ازاں مولانا علامہ سید غلام حسین رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت یں موضع تلیری (مظفر گڑھ ) حاضر ہوئے اور اکتساب علوم کیا ، پھر بمقام چکی( مضافات کیمل پور ) مولانا علامہ محمد زمان رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے ، انہیں آپ کی ظاہری حالت بکھرے ہوئے بال اور پرانے کپڑے دیکھ کر گمان ہوا کہ یہ پڑھنے والا طالب علم نہیں ہے اس لئے انہوں نے داخلے کی اجازت نہ دی ، مولانا خاموشی سے بیٹھ گئے ، اتفاقاً صدرا (شرح ہدایۃ الحکمۃ ) کا ایک مشکل ترین مقام زیر درس تھا ، مولانا محمد زمان نے اس مقام کی تقریری کی او ر طلبہ کو تقریر دہرانے کے لئے کہا لیکن کوئی بھی اسے دہرانہ سکا ۔
علامہ گھوٹوی نے اجازت طلب کی اور پوری تفصیل سے اس مقام کو بیان کردیا ۔اب جو مولانا محمد زمان کو ان کی قابلیت کا پتہ چلا تو نہ صرف داخلے کی اجازت دی بلکہ انہیں قرب خاص سے نوازا۔وہاں کچھ عرصہ استفادہ کرنے کے بعد جامعہ نعمانیہ لاہور چلے آئے اور مولانا علامہ غلام احمد حافظ آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہ کیا ،پھر علامہ زمن مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس جاکر فنون عالیہ کا درس لیا ، ڈیڑھ سال بعد جب ان کا وصال ہو گیا تو آپ مدرسہ عالیہ رامپور میں مولانا فضل حق رامپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے درس میں شریک ہوئے اور کسبِ فیض کیا ۔طب اور صحاح کا درس حضرت مولانا وزیر حسن رامپوری سے لیا ۔
بیعت وخلافت: شیخ الاسلام مرشد المسلمین حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔
سیرت وخصائص: بحرالعلوم،امام الہند،محدث اعظم،شیخ الاسلام،شیخ الجامعہ،زینت التدریس،استاذالاساتذہ،فخرالعلماءوالصلحاء،سرخیلِ سنیت،فاتح ِمرزائیت شیخ المحدثین ،امام المناظرین،فخرالمحققین حضرت علامہ غلام محمدگھوٹوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ اپنے وقت کےعظیم مدرس ومحقق اورنامورمحدث ومناظر،علم ومعرفت کےبحر بےکنارتھے۔ساری زندگی حضرت محبوبِ سبحانی رضی اللہ عنہ کےاس قول پرعمل پیرارہے۔"درست العلم حتی صرت قطباً"۔پھرشیخ ِکامل غوث الاسلام حضرت پیرمہرعلی شاہ علیہ الرحمہ کی تربیت اورنظرنےایساکمال کیاکہ ساری زندگی قال اللہ وقال رسول اللہ زبان پرجاری رہااوراسی پرخاتمہ بالخیرہوا۔
درس وتدریس سےقلبی لگاؤتھا۔ابتداًمعقولات کی طرف زیادہ رجحان تھا،ان علوم میں آپ کی شہرت ہندسےنکل کرافغانستان،اوردیگرممالک تک جاپہنچی،شائقینِ علم سفرکرکےآپ کےپاس آنےلگے،اورعلم وعرفان کی دولت ِ لازوال سے مالا مال ہونےلگے۔آپ شہنشاہ تدریس تھے۔فجر کی نمازکےبعد سےعشاءکی نمازتک تمام فنون کی کتب کادرس جاری رہتا۔ حافظ عبدالحق مرحوم سکنہ گھوٹہ ملتان فرماتے ہیں:آپ کی محبوبیت کایہ عالم تھا کہ آپ کی برکت سے اس دارلعلوم کوچارچاند لگ گئے۔اس کی شہرت چہار اطراف عالم میں پھیل گئی۔اس دارالعلوم کےطلباءکی تعدادکااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہےکہ جب یہ طلباء تعطیلات کےمواقع پر اپنےاپنے گھروں کوجانےکےلئےگھوٹہ سےنکلتےتویہاں سےملتان ریلوے اسٹیشن تک قطاردرقطارطلباء ہی نظرآتےتھے۔طلباءسےایسی شفقت کہ جیسے والدین اپنی اولادسےکرتےہیں۔
بحرالعلوم ہونےکےباوجودانتہائی منکسرالمزاج تھے۔علماء وصلحاء کی بےانتہاءقدرفرماتےتھے۔کبھی دنیاوی لالچ نہیں کیااور نہ ہی علم کو حصول ِدنیاکاذریعہ بنایا۔خودداری ایسی کہ بڑے بڑے رئیسوں اورنوابوں نےبڑےمشاہرےاورمراعات کےعوض آپ کی خدمات حاصل کرنےکی کوششیں کی لیکن آپ نےکم مشاہرے کوترجیح دی،اورایک چھوٹی سی بستی گھوٹہ میں رہ کرعلم وعرفان کےدیپ جلاکرقرونِ اولیٰ کےعلماء کی یادتازہ کردی۔ آپ کئی جامعات ومدارس کےاعزازی پرنسپل تھے۔جب1911ءکودیارِحبیبﷺکی زیارت سےمشرف ہوئے،اورمحبوبﷺکی بارگاہ میں حاضری کاشرف حاصل ہوا۔اس دوران آپ کےنصیب جاگے،اپنے شیخ کی معیت میں زیارتِ خیرالانامﷺسےمشرف ہوئے۔دربارِرسالت سےآپ کو"خدمتِ حدیث"پرمامورکیاجاتاہے۔پھربقیہ تمام زندگی خدمتِ حدیث میں گزاری۔(حیات شیخ الاسلام محدث گھوٹوی،ص،40)
آپ مذاہبِ باطلہ کےخلاف بالعموم اورقادیانیوں کےخلاف بالخصوص ساری زندگی معرکہ آرارہے۔بحمدہ تعالی ہرجگہ باطل سےمقابلہ کیااوراس کوشکست سےدوچارکیا۔آپ کی زندگی کاسب سےعظیم کارنامہ یہ ہےکہ آپ نے"قادیانیوں کوریاستی سطح پرغیرمسلم اورمرتدقراردلوایا،فیصلہ مقدمہ بہاولپوراس کی زندہ مثال ہے"۔اس مقدمے کااجمال یہ ہے کہ غلام عائشہ بنت مولوی الہی بخش کانکاح ان کےایک رشتےدار عبدالرزاق سےہوا،ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی ،کہ مذکورہ شخص قادیانی ہوگیا۔اس نےرخصتی کامطالبہ کیاتوانہوں نےانکارکردیاکہ کافرومرتدسےمسلمان کانکاح نہیں ہوسکتا۔24/جولائی 1926ءکواحمدپورشرقیہ ضلع بہاولپورکی عدالت میں فسخِ نکاح مقدمہ دائرکیاگیا۔قادیانیوں کےخلاف کوئی ایسافیصلہ لینابہت دشوارتھا،کیونکہ اس وقت قادیانیوں کی پشت پناہ گورنمنٹ آف برطانیہ تھی۔بہت سےمقامات پرآزمائشوں کاسامناکرناپڑا،یہاں تک کہ ڈسٹرکٹ کورٹ بہاولپورنے بلاسوچےسمجھےاس مقدمےکوخارج کردیا۔جس سےتمام مسلمانوں کوتکلیف ہوئی۔
مولانا حافظ عبدالرحمن جامعی فرماتے ہیں:حضرت گھوٹوی فرماتے تھے: "مجھےسرورعالمﷺکی طرف سےحکم ملاہے کہ تم علم ِکتاب اللہ،اورسنتِ رسول اللہﷺکوظاہرکرو،اورایمان کی طاقت سےمخالفینِ ختم نبوت کوپسپاکردو"۔ چنانچہ تائیدِ ایزدی،اوراشارہ نبوی ﷺسےسرشارہوکر "چیف کورٹ آف بہاولپور"میں اپیل دائرکی اوراپنی تمام ترکاوشیں اس میں صرف کردیں،کئی وزیروں سےملاقات کی،اور اس مسئلہ کی حساسیت کی طرف توجہ دلائی،اوران کوقائل کیا۔بالآخر دلائل کی روشنی میں قادیانیوں کوشکستِ فاش دی،عدالت اورمجلس شوریٰ نےمتفقہ فیصلہ دیاکہ قادیانی مرتداوردائرہ اسلام سےخارج ہیں۔مسلمان کاقادیانی سےنکاح باطل ہے۔یہ تاریخی فیصلہ 3/ذیقعدہ 1353ھ،مطابق 7/فروری 1935ءکوہوا۔یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔
اس میں حضرت گھوٹوی علیہ الرحمہ کی نوسال کی شب وروزکی کوششیں شامل تھیں۔بلاشبہ پوری امت جج جناب محمدا کبر خان مرحوم کی مرہون ِمنت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف اورمحنت و عرق ریزی سے ایسافیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں کیل ثابت ہوا۔ قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر کی سربراہی میں سرظفراللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ و بچار کی لیکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہواہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔جب پاکستان کی پارلیمنٹ نےقادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قراردینےپربحث کی توانہوں نے"مقدمہ بہاولپور"کےتمام مباحث واقتباسات کو مدنظررکھ کرفیصلہ کیا۔(ایضاً،ص،222)
حضرت سیدناپیرمہرعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت شیخ الجامعہ پربہت شفقت فرماتےتھے،اورآپ کوقدرکی نگاہ سےدیکھتےتھے۔مسائل میں آپ کی رائےکوترجیح دیتےتھے۔بعض مناظروں میں توحضرت غوث الاسلام نے آپ کواپناقائم مقام بناکربھیجا۔اہل سنت کی صداقت ،اوراکابرین ِ اہلسنت کی عظمت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہےکہ ہرزمانےمیں تحفظ ِ ختم نبوت وعظمت ِمصطفیٰﷺکادفاع علماء اہلسنت نےکیاہے۔حضرت پیرمہرعلی شاہ نےمرزےدجال کوذلت آمیزشکست سےدوچارکیا۔آپ کےبعد آپ کےمریدین نےان کوہرجگہ ذلیل کیا فیصلہ مقدمہ بہاولپوراس کی واضح دلیل ہے۔قیام ِپاکستان کےبعدعلماءاہلسنت نےمولانانورانی کی قیادت میں 7/ستمبر1974ءکوپاکستان کی پارلیمنٹ سےان کوکافرومرتدقراردلواکرہمیشہ کیلئے ذلت ان کامقدرفرمادی۔
تاریخِ وصال: بروزسوموار 27/ربیع الثانی1367ھ،مطابق 8/مارچ1948ءکوہوا۔آپ کامزارشریف نورمحل کےقریب قبرستان ملوک شاہ،بہاولپورمیں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابراہلسنت۔حیات شیخ الاسلام محدث گھوٹوی۔