حضرت مولانا غلام رسول عباسی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1312 | ربيع الأول | 06 |
یوم وصال | 1390 | ربيع الأول | 06 |
حضرت مولانا غلام رسول عباسی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا غلام رسول عباسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا صوفی غلام رسول عباسی نقشبندی بن مولانا حکیم جان محمد عباسی کی ولادت گوٹھ سنہری (تحصیل و ضلع لاڑکانہ) میں ۶ ربیع الاول ۱۳۱۲ھ میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم مولانا حکیم جان محمد عباسی نے حضڑت مولانا خلیفہ غلام محمد مہیسر (کمال دیرو) اور ان کے استاد و مرشد، سند الفقہا، امام اہلسنّت، عاشق خیر الوریٰ حضرت خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی علیہ الرحمۃ کے پاس تعلیم حاصل کی تھی ۔ مولانا جان محمد نے گوٹھ حیات لیہ (متصل لاڑکانہ) میں شادی کی اسی لیے وہیں سکونت اختیار کی۔
تعلیم و تربیت:
مولاناغلام رسول نے ابتدائی تعلیم گوٹھ حیات ہلیہ میں اپنے والد محترم کے پاس حاصل کی۔ فارسی کی تکمیل کے بعد عربی کی تعلیم نورنگ واہ (تحصیل قمبر) کے مدرسہ میں مولانا میر محدم نورنگی جاگیرانی سے حاصل کر کے وہیں سے ۱۳۳۵ھ/۱۹۱۶ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ دوران تعلیم چار ماہ بھلیڈنہ آباد (ضلع جیکب آباد) کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ (غالباً علامہ خادم حسین جتوئی علیہ الرحمۃ سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا ۔ راشدی)
درس و تدریس:
مولانا غلام رسول صٓحب کم گو خاموش طبع تھے، درس و تدریس اور حکمت طب کے کام میں مصروف رہتے تھے۔ آپ نے ۱۳۴۱ھ/۱۹۲۲ء میں وٹھ بیرو چانڈیو (تحصیل لاڑکانہ) میں اپنے استاد مولانا میر محمد نورنگی اور رئیس گل محمد چانڈیو کی رفاقت میں ’’مدرسہ دارالفیوض‘‘ کی بنیاد رکھی۔ عرصہ ۲۷ سال تک اس درسگاہ میں پڑھاتے رہے اس کے بعد لاڑکانہ شہر میں کرمان باغ محلہ میں سکونت اختیار کی اور جامع مسجد اللہ والی(باقرانی روڈ) کے متصل پلاٹ پر ۱۹۴۹ء میں مدرسہ ’’دارالفیوض‘‘ قائم کیا اور درس و تدریس کا سلسلہ تا وفات جاری رکھا۔ (سندھ جا اسلامی درسگاہ)
آپ حکیم حاذق تھے درس و تدریس کے ساتھ ذریعہ معاش کیلئے مطب چلاتے تھے۔
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں:
٭ مولانا پیر سید نجی اللہ شاہ راشدی (درگاہ پیر کوٹ نزد ووگن)
٭ استاد العلماء مولانا حمید اللہ انڑ
٭ مولوی جان محمد عباسی(نائب امیر جماعت سلامی پاکستان)
٭ مولوی احمد پیر زادو (دادو)
٭ مولوی خدائے نظر صدر مدرس مدرسہ جامعہ زاہدان (ایران)
٭ مولوی محمد خان چانڈیو (جیکب آباد)
٭ مولوی محمدگل ( زاہل ایران)
٭ مولوی عبدالقادر عباسی( قمبر)
٭ مولوی گل محمد بلوچ (افغانستان)
٭ قاضی محمد (پنجگو ، مکرانی)
٭ قاری غلام النبی (افغانستان)
٭ مولوی مخر الدین وہابی (سجادہ نشین خانقاہ چشمہ شریف کوئٹہ)
٭ مولی علی محمد کا کیپوتہ
٭ مولوی علی محمد بلوچ (سبی) مدرس دارالفیوض لاڑکانہ
٭ مولوی کریم داد اناڑی والے
٭ قاضی عبدالحلیم تمب مکران سابق رکن مجلس شوریٰ بلوچستان
٭ مولوی عبدالعزیز بھانڈے قبہ والے (رتو ڈیرو)
٭ قاضی غلام محدم خارانی (سابق قاضی خضدار)
٭ مولوی محمد اسمعیل قریشی (لاڑکانہ)
٭ قاضی سعد اللہ نوشکی (رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان)
٭ قاضی ابو بکر( لسبیلہ)
شادی و اولاد:
مولانا غلام رسول نے شادی کی ۳ بیٹے اور چھ بیٹیاں تولد ہوئیں۔
۱۔ مولوی جان محمد عباسی (مودودی نظریات کے ترجمان)
۲۔ محمد افضل عباسی
۳۔ ڈاکٹر نور احمد عباسی ایم بی بی ایس (ریٹارئرڈ میڈیل سپرنٹینڈنٹ)
تصنیف و تالیف:
٭ منیر القرآن مطبوعہ ۱۳۴۹ھ/ ۱۹۳۰ ء لاہور
٭ سوانح علامہ میر محمد نورنگی مطبوعہ مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء جامشورو
٭ صرف ایک رسالہ کی شرح لکھی
٭ تصور کے موضوع پر ایک رسالہ لکھا
آپ کا مسلک:
ناشر کو تفسیر تنویر الایمان (سندھی) مکمل شائع کرنا تھی لیکن عجیب اتفاق ہوا کہ اس کے مصنفین انتقال کرگئییہاں تک کہ اشاعتی ادارہ ’’میر قدرت اللہ کریمی پیرس لاہور‘‘ نے اعلان کیا کہ تفسیر کا تیسواں پارہ عم رہ گیا ہے کوئی فاضؒ تیسواں پارہ کی تفسیر، تنویر الایمان کے انداز و طرز پر لکھ کر بھجوائے گا تو ادارہ اشاعت کی ذمہ داری قبول کرے گا۔
مولانا غلام رسول نے پارہ عم کی تفسیر لکھ کر ادارہ کو بھجوائی لیکن مسودہ تاخیر سے پہنچنے کے سبب ادارہ نے پارہ عم کی تفسیر کسی اور کا شائع کردیا تھا۔ لیکن مولانا غلام رسول کی تفسیرکی اہمیت و افادیت کے سبب انہیں بھی ناشر نے ضمیمہ کے طور پر شائع کردیا۔ یہ نسخہ قدیم فقیر کے کتب خانہ میں موجود ہے۔
شکار پور کے مشہور ناشر مولوی عظیم کتب فروش نے تفسیر تنویر الایمان کو مکمل صورتمیں کمپیوٹ رپ ر۵ جلدوں میں شائع کیا ہے لیکن مولانا غلام رسول کی تفسیر کو شامل نہ کیا اور نہ ہی تزکرہ کیا ہے کہ انہیں شامل نہ کرنے میں کیا مجبوری تھی۔ اسی لئے راقم نے عرصہ پہلے ایک مضمون ’’مولان غلام رول اور ان کا مسلک‘‘ تحریر کیا تھا جو کہ بعد میں ماہنامہ الراشد مارچ ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا اس میں تفسیر کا انکشاف اور مولانا کے مسلک کو وضح کیا ۔
آیت کریمہ ان شائنک ھو الابتر ۔ ( پارہ ۳۰، الکوثر )
ترجمہ : بے شک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔
کے ماتحت تفسیر میں مولانا غلام رسول عباسی فرماتے ہیں:
’’الحمد للہ ! یہ پیشن گوئی سچ کی طرح آج ۱۳۴۸ھ تک بحال ہوتی آرہی ہے۔ آپ کے دشمن ہر وقت خوار و خراب ہوتے رہے ہیں ۔ اپنے تجربہ سے کہہ رہا ہوں کہ ’’وہابی فرقے ‘‘ کے نام نہاد مسلمان ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے حق میں گستاخانہ واہانت آمیز الفاظ کہتے ہیں ، میں نے ہمیشہ انہیں خوار و خراب دیکھا۔ عوام الناس کے پاس ان کی کچھ بھی عزت آبرو نہیں ہے ۔ وہ شیعہ کی طرح تقیہ ( جھوٹ ) کر کے دلی بغض ( رسول دشمنی ) کو چھپا کر عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دلی نفاق چھپ نہ سکا اور آخر ذلت کا تمغہ ہر جگہ پر انہیں مل رہا ہے۔
وہابی گرچہ اخفا میکند بغض نبی لیکن
نہاں کے ماند آں زارے کز و سازند محفلھا
’’اللھم اعدنا من صجتھم و مکائدھم و اجعلنا من من شرب من کوثر‘‘۔
( منیر القرآن یعنی ضمیمہ تنویر الایمان فی تفسیر القرآن پارہ عم ص ۹۲ مطبوعہ محرم ۱۳۴۹ھ لاہور)
صحبت صالحین :
مولوی جان محمد عباسی نے لکھا ہے: بزرگان دین کی صحبت کو بہت اہمیت دیتے تھے حضرت مخدوم بصرالدین سیوہانی ، حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی اور حضرت مولانا غلام مھمد مہیسر کے بے حد معتقد اور صحبت یافتہ تھے ۔ ( لاڑکا نو ساہ سیبانو )
سفر مزارات مقدسہ :
ایک بارحضرت آغا عبدالحی جان چشموی سجادہ نشین چشمہ شریف کے ساتھ پاک و ہند کا سفر کیا جس میں خواجہ بہاوٗ الدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ ( ملتان ) ، حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ ( لاہور )، حضرت مام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ سر ہند شریف ، حضرت خواجہ باقی باللہ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ( دہلی ) کے مزارات مقدسہ پر خصوصی طور پر حاضری دی ۔ ( ایضا)
کتب تصوف:
مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ، مثنوی شریف مولانا روم ، اور دیوان حافظ شیرازی کو اکثر مطالعہ میں رکھتے تھے۔ ( ایضا)
مشوری شریف :
مولوی جان محمد نے تاثرات میں لکھا ہے۔ ؛میرے والد صاحب مولانا غلام رسول صاحب آپ کے ( یعنی حضرت خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ کے ) ہم عصر تھے مگر آپ کا بے حد احترام کرتے تھے ( قاسم ولایت ص ۲۶۶) مولانا غلام رسول عباسی ایک عربی مکتوب میں حضرت سرکار مشوری قدس سرہ الاقدس کے لئے درج ذیل القاب درج فرماتے ہیں : ۔ ’’لتاج ھلمۃ ، الکملا ء فریدۃ ، عقد الفضلاء و اللوذبحی جامع العلوم ‘‘( ایضا)
وصال :
مولاناغلام رسول نے ۶، ربیع الاول ۱۳۹۰ھ ؍ ۱۳ ، مئی ۱۹۷۰ء کو انتقال کیا۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت)