حضرت مولانا غلام رسول کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا غلام رسول ، جنت نظیر وادی کشمیر کے ایک گاوٗ ں پر تاب پورہ ( قصبہ شوپیاں تحصیل کو لگام ) ضلع اسلام آباد ( اننت ناگ ) کے ایک معزز و متمول ’’بٹ ‘‘ خاندان میں ۱۹۳۵ء کو تولد ہوئے۔ آپ کے والد عبدالعزیز گاوٗ ں کے نمبر دار تھے ۔
تعلیم و تربیت :
اپنے علاقہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ۱۹۴۸ ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے سفر اختیار کیا ۔ تبلیغی جماعت ‘‘ کے ظاہر کو دیکھ کر چھ ماہ اس کے ساتھ رہے جب باطن نظر آیا توالگ ہو گئے بلکہ متنفر ہو گئے ۔ ۱۹۵۱ء میں پاکستان تشریف لائے، کراچی میں قاری احمد حسین فیروز پوری ثم گجراتی کی دل کش تقریروں اور روح پر ور نعتوں نے دل کو گرمایا ، عشق کو جگایا، قاری صاحب سے تعلق خاطر ہو گیا ، تبلیغی جماعت کے اثرات زائل ہو گئے۔ مولانا نے ابتدائی دینی کتابیں حضرت مولانا قاری مصلح الدین صدیقی سے پڑھیں پھر دارالعلو م مظہر یہ ( جامع مسجد آرام باغ کراچی ) میں مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی ( مفتی آگرہ ) سے اور علامہ خادم رسول ( تلمیذ حافظ الملت علامہ عبدالعزیز مراد آبادی شیخ الحدیث مدرسہ مصباح العلوم جامعہ اشرفیہ مبارکپور انڈیا) سے ایک سال پڑھا ، اس کے بعد ۱۹۵۴ء ، سے ۱۹۵۹ء تک تقریبا چھ سال دارالعلوم امجد یہ کراچی میں ممتاز اساتذہ سے پڑھتے پڑھتے آخر میں مدرسہ مخزن بحر العلوم کراچی میں تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی سے دورہ حدیث کی تکمیل کی اور ۲۵، ذوالحجہ ۱۳۸۶ھ بمطابق ۱۷، اپریل ۱۹۶۶ء کو تاج العلماء کے صاحبزادے مولانا مفتی محمد اطہر نعیمی نے سند جاری فرمائی ۔
آپ کو محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد صاحب فیصل آبادی ( رحلت ۱۳۸۱ھ؍ ۱۹۶۱ئ) سے مشکوٰۃ شریف کے کچھ اسباق پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہے۔
بیعت و خلافت :
آپ ۱۹۵۳ء میں حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان بریلوی سے غائبانہ بیعت ہوئے ، پھر ۱۹۶۲ء میں بریلی شریف حاضر ہو کر تجدید بیعت فرمائی ۔اسی وقت مفتی اعظم ہند نے اجازت و خلافت جاری فرمائی اور ۱۹۸۰ء میں احباب کے اصرار پر بیعت کا آغاز کیا۔
خانقاہ کی بنیاد:
آپ نے کورنگی نمبر ۵ کراچی میں ’’خانقاہ ایمانیہ قادریہ رضویہ ‘‘قائم کی، آخر میں ۱۹۹۳ء میں ’’دعوت ایمانیہ رضویہ ‘‘ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم ہوا، جس کے آپ چیئر مین ہوئے۔
عادات و خصائل :
مولانا نہایت خاموشی اور لگن کے ساتھ کراچی میں دین و مسلک کی خدمت کرتے رہے نام و نمود اور شہرت سے بچتے رہے ، دنیا کی ہوس کو دل سے دور رکھا ، مجاہد انہ اور فقیر انہ زندگی بسر کی۔ معمولات کی محفلوں کے علاوہ گھر گھر محفلوں میں شریک ہوئے ، مسلک اہل سنت و جماعت کی حقانیت کو اجاگر کیا، عقیدوں کو سنبھالا ، گمراہی سے بچایا۔ آپ ایک شعلہ بیان مقرر اور حق گو خطیب تھے۔ امام احمد رضا خان بریلوی ؒ اور آپ کے مسلک مستقیم سے مولانا کو والہانہ لگاوٗ تھا، زندگی بھر اسی مسلک کی اشاعت کرتے رہے، آپ علماء اہل سنت کو بہت پسند فرماتے تھے اور ملاقات کے وقت انہیں تحفہ ضرور نذر کرتے تھے۔
خطابت و امامت :
۱۹۵۷ء سے تادم وصال امامت و خطابت سے وابستہ رہے ۔ غوثیہ مسجد لیاقت آباد ، تاج مسجد وغیرہ ۔
سفر حرمین شریفین :
۱۴۰۷ھ ؍ ۱۹۸۷ء کو آپ زیارت روضہ رسول اکرم ﷺ اور حج بیت اللہ کی سعادت سے سر فراز ہوئے ۔
شادی و اولاد :
آپ نے خاندان سے باہر شادی کی اس میں سے ایک بیٹا اورایک بیٹی تولد ہائے۔
وصال :
بروز بدھ ۲۳ ، شعبان المعظم ۱۴۱۵ھ؍ ۲۵، جنوری ۱۹۹۵ء کی شام اچانک آپ کو درد قلب کی شکایت ہوئی اور ہم سے جدا ہو گئے ۔ وصال کے وقت عمر ۶۳ سال تھی ۔ آپ کی نماز جنازہ دوسرے روز صبح ۱۰ بج کر ۵۰ منٹ پر جامع مسجد بسم اللہ لانڈھی نمبر ۶ کراچی سے متصل مرکزی شاہراہ پر علامہ سید شاہ تراب الحق قادری کی امامت میں ادا کی گئی ۔ کراچی کے ناگفتہ نہ حالات اور اس روز خوف و دہشت کے باوجود عوام الناس جوق شریک ہوئے، جلوس جنازہ دیدنی تھا، کورنگی کراچی کے قبرستان میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔
آپ کے وصال کے بعد اتفاق رائے سے آپ کے جواں سال خلیفہ مولانا زاہد سراج قادری کو آپ کا جانشین نا مزد کیا گیا۔ ( ماخوذ: کتابچہ ماہ حق مطبوعہ دعوت ایمانیہ رضویہ کورنگی کراچی ۱۹۹۵ء )
حضرت صابر براری نے قطعہ تاریخ وصال استخراج فرمایا وہ درج ذیل ہے:
چل دیئے آج سوئے خلد بریں
اہل سنت کے واعظ مقبول
تھے وہ شیدائی اعلیٰ حضرت کے
دوستی کی نہ دشمنوں سے قبول
کی ہے تبلیغ دیں میں عمر بسر
کبھی چھوڑے نہیں ہیں اپنے اصول
سال رحلت ہے ان کا یہ ’’صابر‘‘
شان اہل ارم غلام رسول
( ۱۹۹۵ء )
(انوارِ علماءِ اہلسنت )