حضرت مولانا حافظ رفیق رضوی
حضرت مولانا حافظ رفیق رضوی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا حافظ رفیق رضوی
مجاہد اہل سنت ، پیکر اخلاق ، ناشر سنیت حاجی حافظ محمد رفیق بن حاجی حافظ دین محمد چشتی مہروی ۱۹۳۵ء کو دہلی بلی ماران ( انڈیا) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :آپ کے گھر کا ماحول خالص دینی تھا گھر سے ابتدائی تعلیم کاآغاز کیا۔ اس کے بعد دس سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور اسی چھوٹی سی عمر میں امام اہل سنت اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی ؒ کے شاگرد و خلیفہ مولانا قاضی عبدالغفور رضوی کی صحبت اختیار کی اس کے بعد مولانا حکیم سیف الدین کی صحبت میں دینی تعلیم اور حکمت سیکھی۔
قیام پاکستان کے بعد شیخ الحدیث حضرت علامہ سر دار احمد رضوی محدث لائلپوری کی صحبت اختیار کی۔
پاکستان میں قیام :قیام پاکستان کے بعد انڈیا سے پاکستان تشریف لائے۔ شروع میں سر گودھا میں قیام کیا اور ۱۹۵۱ء کو آپ ایک نوجوان سید ظہور احمد شاہ کے ہمراہ حرمین شریفین کے سفر پر نکلے ۔ لیکن دوران سفر سکھر ( سندھ) آئے اور سکھر کی مشہور و مرکزی مسجد جامعہ قادریہ میں قیام پذیر ہوئے۔ سید صاحب کو ریلوے ہائی اسکول میں نوکری ملی اور آپ کو اسی مدرسہ قادریہ میں حفظ و ناظرہ کی کلاس کے لئے بحیثیت مدرس ملازمت ملی ۔ اس طرح آپ نے ۱۹۵۱ء تا ۲۰۰۴ ء تک ۵۲ سال کا طویل عرصہ سکھر میں بسر کیا۔ ان دنوں جامعہ قادریہ ( آج اس مدرسہ کے نام سے بھی کوئی شنا ساسکھرمیں مشکل نظر آئے گا) میں شیخ الحدیث کے منصب پر مولانا محمد شریف رضوی اور تدریس و فتاویٰ نویسی کی خدمات پر استاد العلماء مولانا مفتی محمد صالح نعیمی ( لاڑکانہ ) مامور تھے۔
بیعت :آپ لائلپور ( فیصل آباد ) میں شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد سروار احمد رضوی بانی جامعہ رضویہ مظہر اسلام سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں دست بیعت ہوئے۔ ان کے علاوہ دیگر علماء و مشائخ طریقت کی صحبت بافیض سے بھی لطف اندوز ہوئے۔
سیاسی خدمات: آپ اول تاآخر اہل سنت و جماعت کی نمائندہ سیاسی جماعت ’’جمعیت علماء پاکستان سے منسلک رہے۔ تحفظ مقام مصطفی اور نفاذ نظام مصطفی ﷺ کے لئے کوشش و جدوجہد کرتے رہے، سکھر میں دینی سیاسی ہر موڑ پر مولانا مفتی محمد حسین قادری کے ساتھ ساتھ رہے۔
خدمت خلق:آپ ایک عامل تھے، سکھر میں وجہ شہرت تعویذات کے حوالے سے تھی ، کئی بزرگوں سے عملیات و وظائف لے رکھے تھے۔ کھڈہ ( شمس آباد ) میں محمد ی مسجد کے برابر میں آپ کی رہائش تھی سارا دن تعویذات کے سائلین کا ہجوم رہتا ہے۔ اس طرح کافی خلق خدا نے فیض حاصل کیا۔
امامت و خطابت: شروع میں اللہ والی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے اس کے بعد محمد ی مسجد عرف کھڈہ مسجد ( شمس آباد محلہ ) سکھر میں تشریف لائے اور تاحیات اسی مسجد کے ساتھ منسلک رہے۔ مسجد شریف کے متصل مدرسہ تعلیم القران بھی قائم کیا۔ اس طرح شب وروز تبلیغ دین میں مصروف رہتے ۔
شادی و اولاد :۱۹۶۱ء کو آپ نے استاد العلماء علامہ غلام محمد گھوٹوی مہروی کے شاگرد خاص مولانا حافظ فضل کریم چشتی مہروی کی بڑی بیٹی سے رشتہ رزدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ نے گھر کا ایسا علمی روحانی ماحول پیدا کیا کہ آپ کی تمام اولاد دینی تعلیم سے آراستہ ہوئی نہ فقط لڑکے بلکہ لڑکیا ں بھی علم و فضل سے آراستہ ہیں یہاں تک کہ سکھر کی اکثر بچیوں اور مستورات کے مدارس ان بچیوں کے فیض سے جاری ہیں ۔ اور ایسے ماحول سے ہمارے اکثر علامء و مشائخ کے گھر خالی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی اولاد والد کے الٹ چلتی ہے۔ ایک بار فقیر راشدی غفرلہ نے آپ کے صحبت یافتہ جناب قاری صلاح الدین صاحب سے دریافت کیا کہ قاری صاحب کی تمام اولاد دینی تعلیم سے آراستہ کیسے ہوئی ؟ انہوں نے کہا میری نظر میں اس کے دو جوابات ہیں ایک یہ کہ وہ نماز تہجد کے بعد اپنی اولاد کے لئے حصول تعلیم کی گڑگڑا کر دعا کرتے تھے اور دوسرا وہ ہر ملنے والے فقیر درویش پیر مشائخ سے اولاد کے حق میں علم دین کی دعا ضرور کرواتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھ بیٹیاں اور چھ بیٹے عنایت فرمائے۔
۱۔ خطیب اہل سنت مولانا علامہ عارف حسین سعیدی مہتمم جامعہ انوار مصطفی سکھر
۲۔ قاری محمد آصف مصطفائی ناظم جامعہ انوار مصطفی سکھر
۳۔ محمد عابد سعیدی
۴۔ مولانا حافظ قاری ساجد القادری مہتمم مدرسہ محمد یہ حنفیہ کوئٹہ
۵۔ قاری محمد عالم سعیدی
۶۔ قاری مولانا محمد شفیق سعیدی
عادات و خصائل :وہ انتہائی مخلص ، خلیق ، متواضع ، متوازن اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ عجب واستکبار اور بندار نفس کی خوبوان میں بالکل نہیں تھی۔ تعمیری سوچ کے حامل ، متحرک مستقل مزاج ، عمل پیہم کے پیکر ، مہمان نواز، علماء و مشائخ کے قدردان ، اور دین کے درد سے سرشار تھے۔
سفر حرمین شریفین :۱۹۵۲ء کو سکھر سے حج بیت اللہ اور روضہ رسول مقبول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔ حرمین کا یہ پہلا سفر تھا۔
بنیاد ی کام :آپ ہالا رمیمن جماعت خانہ میں تعلیم قرآن دیا کرتے اور شوکت الاسلام اسکوم میں ٹیچر تھے۔ صبح کو اسکول ، نماز ظہر کی امامت کے بعد تعویذات کا سلسلہ ، بعد نماز مغرب محمد ی مسجد میں تعلیم قرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح اصل بنیادی کام کرنے کے لئے راہ ہموار کی عوام الناس سے تعلقات استوار کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سکھر میں اہل سنت و جماعت کی اہم و بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل مراکز کو قائم کیا :
٭ جامعہ انوار مصطفی ٹرسٹ نزد ریلوے گراوٗنڈ سکھر
٭ اباعیسیٰ اسلامک سینٹر میانی روڈ سکھر ( برائے خواتین)
٭ مدرسہ سعیدیہ کاظمیہ انوار مصطفی گوٹھ علی واہن تحصیل روہڑی ضلع سکھر
٭ مدرسہ تعلیم القرآن محمد یہ نیو پنڈسکھر
٭ مدرسہ جامعہ محمد یہ حنفیہ کوئٹہ ( بلوچستان)
وصال :وفات سے کچھ عرصہ قبل کار کے حادثے میں شدید زخمی ہو گئے کمزوری آچکی تھی اور تھوڑے عرصے کے بعد راہی جنت ہوئے۔ حافظ قاری حاجی محمد رفیق نے ۲۷، جمادی الاول ۱۴۲۵ھ بمطابق ۱۶، جولائی ۲۰۰۴ء بروز جمعۃ المبارک گیارہ بجکر اکیس منٹ پرستر ( ۷۰) سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اور مدرسہ انوار مصطفی سکھر کے صحن میں تدفین عمل میں آئی۔
[ذاتی معلومات کے علاوہ رسالہ رفیق ملت مطبوعہ رفیق الملت ٹرسٹ سکھر سے حالات ماخوذ ہیں]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)