حضرت مولانا حاجی احمد شاہ عرف مظفر علی خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حاجی احمد شاہ عرف مظفر علی خاں ۱۲۷۲ھ میں حضرت حافظ حاجی محمود جالندھری قدس سرہ سے بیعت ہوئے۔ اور ۱۲۹۹ھ میں ان سے خلافت و اجازت حاصل کی۔ بقول جناب مولوی سراج الدین احمد صاحب دہلوی خاں صاحب موصوف کو اجازت و خلافت حضرت مرشد میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی ہے۔ میاں صاحب علیہ الرحمۃ آپ کی تعظیم کو کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور کھانا اپنے ہمراہ کھلایا کرتے تھے۔ ضلع حصار میں آپ کے بہت سے مریدین ہیں۔ آپ میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سجادہ نشین بھی رہے ہیں۔ آپ نے اکانوے برس کی عمر میں بتاریخ ۲۴؍ جمادی الاولےٰ ۱۳۳۸ھ مطابق ۱۹۲۰ء وصال فرمایا۔ مزار مبارک حصار میں ہے۔ میاں عبد الصمد خاں صاحب سجادہ نشین ہیں جو حضور صاحب کے لقب سے مشہور ہیں۔
کرامت:
خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ انسپکٹر پولیس تھے۔ آپ کی یہ کرامت عوام میں مشہور ہے کہ آپ کا گھوڑا بیگار کی گھاس نہ کھاتا تھا۔ اس کی نسبت قاضی فضل حق صاحب حال سب انسپکٹر حصار نے جو کچھ اپنے والد بزرگوار جناب مولوی حاجی قاضی فضل احمد صاحب پنشز کورٹ انسپکٹر لودہیانہ کو اپنے خط مورخہ ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں تحریر فرمایا ہے وہ یہ ہے۔ کہ میاں عبد الصمد خان صاحب نے فرمایا۔ کہ ایک مرتبہ پیر عبد اللطیف صاحب صاحب پانی پتی (جو بعد میں انسپکٹر پولیس ہوئے۔ انبالہ سے پینشن لی اور فوت ہوگئے) کپتان صاحب کی پیشی میں تھے۔ کسی گاؤں میں خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی دورہ میں کپتان صاحب کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ جیسا کہ عام قاعدہ ہے بیگار میں گھاس آئی ہوئی تھی۔ وہ آپ کے گھوڑے کے آگے ڈال دی گئی۔ تو اس نے نہ کھائی۔ پیر جی صاحب کو خیال ہوا کہ شاید گھوڑا بیمار ہے۔ انہوں نے حضرت صاحب سے رپوٹ کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا نہیں اور پوچھا کہ یہ گھاس کہاں سے لائی گئی ہے۔ معلوم ہونے پر آپ نے فوراً اس بنئے کو طلب فرمایا اور گھاس کی قیمت ادا کی۔ پھر فرمایا کہ اب ڈال دو۔ چنانچہ گھوڑا وہ گھاس کھانے لگ گیا۔ میاں عبد الصمد خاں صاحب نے اس ضمن میں مزید فرمایا کہ ایک مرتبہ میرے سامنے علاقہ حصار کے بہت سے ہندو مل کر آئے اور خاں رحمۃ اللہ علیہ کی شکل دیکھتے ہی کہنے لگے۔ ’’وہ تو وہی ہے جس کے گھوڑے نے مفت کی گھاس نہیں کھائی تھی۔‘‘ میاں صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ حضور نے خود تو کبھی کوئی ایسی بات نہیں فرمائی تھی۔ جب پوچھا بھی جاتا تھا۔ تو فرمایا کرتے تھے کہ یہاں لوگ یو نہی اڑادیا کرتے تھے۔
(مشائخ نقشبند)