حضرت مولانا حکیم خادم علی سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مولانا حکیم خادم علی سیالکوٹی۔لقب:فاضل،ادیب،کامل طبیب۔
مقامِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: حضرت حکیم صاحب حافظِ قرآن اورعلومِ ظاہری میں کامل دسترس رکھتےتھے۔عربی،فارسی ،اردو ادب اورفنِ طب میں فخرِ روزگارتھے۔
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خوجہ حافظ محمد عبدالکریم رحمۃ اللہ علیہ (عیدگاہ شریف راولپنڈی) کےمریدہوئے اورخلافت واجازت سےمشرف ہوئے۔اسی طرح حضرت امیرملت پیرسیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نےبھی خلافت عطاءفرمائی۔
سیرت وخصائص: ماہرِ علومِ دینیہ،فاضل اجل،طبیبِ روحانی وجسمانی حضرت علامہ مولانا حافظ حکیم خادم علی سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت حکیم صاحب علوم دینیہ اور طب میں فخر روزگار اور، شعر و شاعری میں کمال رکھتے تھے۔ حضرت حکیم صاحب حافظ قرآن اور ظارہی علوم میں با کمال ہونے کے ساتھ ساتھ باطنی علوم میں بھی بلند مقام رکھتے تھے ۔ حضرت حکیم صاحب قادر الکلام خطیب تھے ، ان کی تقریر اور منظو کلام میں بلا کاسوز تھا ، انہوں نے شریعت و طریقت ، طب و حکمت اور علم و ادب کی گرانقدر خدمات انجام دیں ، آپ کاکلام حکمت و موعظت اور پندو نصیحت کا قابل قدر خزینہ ہے ، آپ کی متعدد تصانیف شائع ہو کر مقبول عوام و خواص ہو چکی ہیں۔
حضرت حکیم صاحب نے اپنے فیض کرامت پر طب کا پردہ ڈال رکھا تھا ، ہزاروں افراد حاضر ہوتے اور پنی ظاہری و باطنی بیماریوں کا علاج کروا کر واپس جاتے۔ آپ کا حلقۂ ارادت بہت وسیع ہے ۔ حضرت حکیم صاحب غریب پر ور اور وفار شعار بزرگ تھے ۔ حکیم عبد اللہ سکھ مذہب چھوڑ کر آپ کے ہاتھ پر مسلما ن ہوئے تھے ، ان کے وفات کے بعد آپ طویل عرصہ تک ان کے مطب ، واقع اڈہ شہباز پر تشریف لے جاتے رہے تاکہ حکیم عبد اللہ مرحوم کا مطب چلتا رہے اور ان کے بچوں کی کفالت ہوتی رہے۔
مشہور زمانہ طبیب اور فاضل جناب حکیم نیر واسطی کے تأثرات:
سر زمین سیالکوٹ نے جہاں شاعری میں اقبال کو جنم دیا وہاں طب میں حکیم خادم علی جیسی عظیم شخصیت کو پیدا کیا ۔ حکیم خادم علی علیہ الرحمہ علم وعمل اور فن طب میں کمال کے علاوہ تصوف ،شعر اور ادب میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی فیاضیوں نے وہ تمام خصوصیتیں مرحوم میں جمع کردی تھیں جو آج سے چند سو سال پہلے ہماری قوم میں پائی جاتی تھیں ۔سنا ہے حکیم صاحب نے ایک سو بائیس سال عمر پائی ، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ مدت چشم زدن میں گزر گئی اور ہم اسلاف کی اس دولت مستعجل سے کچھ بھی استفادہ نہ کر سکے ۔
جناب حکیم آفتاب احمد قرشی لکھتے ہیں:
"وہ بلا شبہ اس دور کے قطب تھے ، ان سے لاکھوں انسانوں نے فیض پایا ، وہ مستجاب الدعوات تھے ، جو دعابھی کرتے بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت حاصل کرتی ، وہ مرد مومن تھے ، ان کی نگاہ تقدیر کو بدل دیتی تھی ، ان کی ذات سے بے اختیار کرامتیں صادر ہوا کرتی تھیں ، و ہ چشمۂ فیض تھے جس سے لاکھوں انسان شاد کام ہوئے اس کے باوجود انہوں نے بہت کم حضرات کو بیعت کیا ، فخر سیالکوٹ حکیم خادم علی فرمایا کرتے تھے میں خودگناہ گارانسان ہوں ، دوسروں کے بوجھ اٹھانے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے"۔
رئیس الاطباء حکیم خادم علی طب میں یگانہ حیثیت کے حامل تھے ۔ مریض کا معائنہ کرتے تو مریض کا ماضی ، حال اور مستقبل ان پر روشن ہوجاتا ، وہ اصل مرض کی نشاندہی کرتے ، ان کی انگلیوں پر سو سو تھر ما میٹر قربا ن تھے ،وہ صاحب کمال تھے۔ غریبوں اور یتیموں سے انہیں دلی الفت تھی ، یتیم لڑکیوں کی شادی کا انتظام ، غریب طلباء کی تعلیم کا اہتما م کرتے ، انہوں نے سینکڑوں طلباء کو تعلیم دلائی ، مگر یہ امداد خاموشی سے کیا کرتے تھے۔
وہ بزرگوں کے مزار پر حاضری بھی دیا کرتے ، سرہند شریف، اجمیر شریف ، کلیر شریف جاتے ، آزادی کے بعد وہ چور شریف ، پاکپتن ، لاہوراور راولپنڈی کا سفر کرکے اپنے ذوق کی تسکین کرتے، وہ نعت گو شاعر تھے،انہوں نے بارگاہ نبوت میں عقیدت ونیاز مندی کے جذبات کو ول آ ویز اشعار کی صورت میں پیش کیا ہے ، وہ عاشق رسول ﷺتھے ، وہ صاحب طرز ادیب تھے ، ان کا خط بڑا پختہ تھا، وہ خود خطوط کا جواب لکھا کرتے تھے"۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 30/جمادی الثانی 1391ھ،مطابق 20/اگست 1971ء،بروزہفتہ کوہوا۔آپ کامزارپرانوار سیالکوٹ میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابراہلسنت۔