حضرت حکیم قاری احمد پیلی بھیتی
حضرت حکیم قاری احمد پیلی بھیتی (تذکرہ / سوانح)
حضرت حکیم قاری احمد پیلی بھیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا قاری احمد ۱۹۱۱ء کو گنج مراد آباد، ضلع اوٹاوا ، انڈیا اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولانا عبدالاحد پیلی بھیتی تھا جو اپنے دور کے ممتاز محدث مولانا وصی احمد سورتی (بانی مدسۃ الحدیث ، پیلی بھیت) کے صاحبزادے اور امام احمد رضا خان محدث بریولی کے شاگرد خلیفہ تھے۔ قاری احمد کی والدہ محترمہ تیرہویں صدی کے والی کامل حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی کی نواسی اور ممتاز عالم دین مولانا عبدالکریم گنج مراد آبادی کی صاحبزادی تھیں۔ قاری احمد کے والد مولانا عبدالاحد کو ان کے مخصوص انداز خطابت اور شعلہ بیانی کی وجہ سے امام احمد رضا بریلوی نے ’’سلطان الواعظین‘‘ کا خطاب مرحمت فرمایا تھا۔
تعلیم و تربیت:
حکیم قاری احمد نے ابتدائی تعلیم مدرسۃ الحدیث ، پیلی بھیت میں مولانا عبدالحئی پیلی بھیتی خلف الرشید مولانا عبدالطیف سورتی اور ابو المساکین مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی سے حاصل کی گولڑ شریف میں قیام کے دوران سرزمین پنجاب کے نامور قاری مولانا غلام رسول سے قرأت کی تعلیم حاصل کی۔ رامپور کے مدرسہ عالیہ میں مولانا افضال الحق سے صرف و نحو مکمل کیا۔ ۱۹۲۳ء کو معرسہ امینیہ دہلی میں قیام کے دوران آپ نے مختلفعلوم و فنون میں مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا ضیاء الحق اور مولانا عبدالغفور سے بھی استفادہ کیا۔ ۱۹۳۶ء میں طیبہ کالج لکھنو سے حکمت کی سند حاصل کی اور پھر اپنے آبائی شہر پیلی بھیت میں طبابت کا آغاز کیا۔
دوران تعلیم ۱۹۲۷ء کو گولڑا شریف کا سفر اختیار کیا اور حضرت قبلہ عالم پیر سید مہر علی شاہ جیلانی چشتی (گولڑہ شریف) کی خدمت میں حاضر ہو کر سلسلہ عالیہ چشتیہ میں سعادت بیعت حاصل کی۔
سیاسی خدمات:
قاری احمد مذہب و سیاست کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے اسلئے پیلی بھیت میں مسلم لیگ کی کامیابی و کامرانی کیلئے مقدور بھر کوششیں کیں۔ سٹی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہو کر گرانقدر خدمات انجام دیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح جب ۱۹۳۹ء میں علی گڑھ سے واپسی پر مسلک لیگ کے تنظیمی دورے پر بریلی شریف تشریف لائے تو مولانا قاری احمد صدہا کارکنوں کا ایک جلوس لے کر پیلی بھیت سے بریلی شریف پہنچے اور قائد اعظم کے پر جوش استقبال میں حصہ لیا۔ قائد اعظم کی بریلی آمد کی تفصیلات آپ نے اپنی کتاب ’’تاریخ پاک و ہند ص۳۹۵‘‘ میں درج کی ہیں۔
۱۹۳۹ء کے اواخر میں کانگریس حکومت کے خاتمہ پر مسلمانان ہند نے قائد اعظم کی اپیل پر نہایت جوش و خروش کے ساتھ یوم نجات منایا۔ پیلی بھیت میں یوم نجات کے موقعہ پر قاری احمد نے ایک طویل جلوس نکالا اور جلسہ منعقد کیا۔ نتیجتاً گرفتار ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد قاری احمد کراچی شفٹ ہوکر آئے۔ مجاہد ملت علامہ عبدالحامد بدایونی سے دیرینہ مراسم کی بنا پر ’’جمعیت علماء پاکستان‘‘ کی سرگرمیوں میں پر جوش حصہ لیا۔ ۱۹۴۹ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت کے مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے اور قرار دادِ مقاصد کی تائید کی۔
تصنیف و تالیف:
۱۹۵۰ء میں کراچی سے جاری ہونے والے ایک مذہبی ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ کے نائب مدیر مقرر ہوئے اور مذہبی و تاریخی موضوعات پر مختلف مضامین قلم بند کئے۔ ۱۹۵۳ء میں حج بیت اللہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کی سعادت سے سر فراز ہوئے اور ’’مشاہدات حرمین‘‘ کے نام سے سفر نامہ حج تحریر کیا جو قیام پاکستان کے بعد کراچی سے شائع ہونے والا پہلا سفر نامہ حج تھا۔ کراچی کے اہل محبت عوام نے اونٹ گاڑیوں کے جلوس کی صورت میں کراچی بندرگاہ پر آپ کو حج کیلئے الوداع کہا، ۱۹۵۵ء میں قرآن محل کراچی کے مالک محمد سعید کی فرمائش پر ماہنامہ ’’پیام حق‘‘ کی ادارت سنبھالی اور خاموشی کے ساتھ اس حیثیت سے تا دم مرگ کام کرتے رہے۔ (اکابر تحریک پاکستان) ایک درجن سے زائد کتابوں پر مبسوط مقدمے تحریر فرمائے۔ ان کتابوں میں مسند امام اعظم، ابن تیمیہ کی سیاعت شرعیہ، ابن خلدون کی سیرت الانبیائ، امام ابن جزری کی حصن حصین، مولانا امجد علی کی اصول حدیث اور مفتی انتظام اللہ شہابی کی مجالس المومنین وغیرہ شامل ہیں۔ مولانا نے مذہبی و تاریخی موضوعات پر تقریباً بائیس کتابیں تحریر کیں۔ مثلاً
۱۔ بخاری شریف جلد اول کا ترجمہ
۲۔ اکمال فی اسماء الرجال از شیخ ولی الدین الخطیب صاحب مشکوٰۃ کااردو ترجمہ
۳۔ مشاہدات حرمین
۴۔ تاریخ رو ہیکھنڈ
۵۔ قادیانی فتنہ کا ارتداد
۶۔ علماء تابعین
۷۔ تاریخ ہند وپاک
مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل اردو بازار کراچی۔ غالباً ۱۹۷۶ء
۸۔ تاریخ مسلمانان عالم
۹۔ سوانح حیات حضرت لعل شہباز قلندر (پوری کتاب کو عالم فقری نے ’’اولیائے پاکستان‘‘ میں شامل کردیا ہے)
۱۰۔ سوانح حیات اعلیٰ حضرت بریلوی از : الحاج مانا میاں پیلی بھیتی۔ آپ نے مرتبہ فرما کر شائع کی۔
سورتی دواخانہ:
تصنیف و تالیف کے علاوہ قاری احمد ایک اچھے طبیب و خطیب تھے۔ کراچی کے علاقہ کاغذی بازار میٹھا در، صدر ٹائون میں ’’سورتی دواخانہ‘‘ کے نام سے پابندی کے ساتھ گذشتہ ۲۵ سال سے مطب کر رہے تھے جو مولانا کا ذریعہ معاش تھا۔ بادامی مسجد میٹھا در ، ترک مسجد لی مارکیٹ اور رحمت مسجد بھیم پورہ سے آپ بحیثیت خطیب وابستہ رہے۔
اولاد:
آپ کو تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں تولد ہوئیں۔ سب سے بڑے بیٹے محترم جناب خواجہ رضی حیدر صاحب نے آپ کی علمی مسند کو سنبھالا ہے۔ اور کئی کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں اور منجھے ہوئے قلمکار ہیں۔
وصال:
مولانا قاری احمد نے ۱۳ جمادی الاول ۱۳۹۶ھ بمطابق ۱۴ مئی ۱۹۷۶ء کو اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ۶۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)