آپ کمال، ورع، تقویٰ اور دیانت داری میں مشہور تھے، شیخ نظام الدین اولیا نے آپ ہی سے ’’مشارق‘‘ کے حصوں کی سند حاصل کی اور ان سے مولانا برہان الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے استفادہ کیا اور ان سے میں نے فیض پایا۔ مولانا کمال الدین زاہد۔۔۔ مشارق کو شیخ نظام الدین اولیا نے سنا تھا آپ نے ان کا اجازت نامہ اپنے ہاتھ سے خود لکھا ہے جو سیرالاولیا میں موجود ہے۔
سلطان غیاث الدین بلبن کی یہ آرزو تھی کہ مولانا کمال الدین زاہد کو امام مقرر کرکے ان کے پیچھے نماز پڑھا کریں، چنانچہ اسی غرض سے مولانا موصوف کو اپنے ہاں بلایا اور کہا کہ مجھے آپ کے علمی کمالات، دیانت، حفاظت پر پختہ اعتقاد ہے مہربانی فرماکر اگر آپ امامت کا عہدہ قبول فرمالیں تو میں آپ کا رہین منت ہوں گا اور مجھے اپنی نماز کے قبول ہونے پر پورا یقین ہوجائے گا، مولانا نے جواب دیا کہ میرے پاس تو پہلے نماز ہی نماز باقی رہ گئی ہے اس کے علاوہ میرے پاس اور کچھ نہیں رہا اب آپ کی مرضی یہ ہے کہ میرے پاس یہ بھی نہ رہے، مولانا نے یہ جواب کچھ اس با رعب اور پُرجلال لہجہ میں دیا کہ بادشاہ خاموش رہ گیا اور عذر خواہی کرتے ہوئے مولانا کو باعزت طریقے سے رخصت کیا۔
میں کیا تھا تم نے کیا سے مجھے کیا بنا دیا
ہے ابتدا بھی یاد مجھے انتہا کے ساتھ
اخبار الاخیار