حضرت مولانا مخدوم غلام محمد ملکانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:غلام محمد۔لقب: قبیلہ ملکانی بلوچ کی نسبت سے"ملکانی"کہلاتےہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 14/رمضان المبارک 1276ھ،مطابق اپریل/1860ءکودرگاہ ملکانی شریف ضلع دادوسندھ پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدا میں حضرت مخدوم جنید علیہ الرحمۃ کے خاندان کے اخوند عبدالکریم کے مکتب میں قرآن کریم ناظرہ پڑھا۔ اس کے بعد ایک دوسرے گوٹھ میں فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ دادو کے پرائمری اسکول میں سندھی کی سات جماعت کی تکمیل فرمائی۔اس کے بعد دینی تعلیم کی جانب رخ کیا۔ اس سلسلہ میں حضرت علامہ مولانا محمد حسن قریشی کے حیدرآباد والے مدرسہ میں داخلہ لیا اور پچیس برس کی عمر میں 1302ھ میں دستار فضیلت سے سر فراز ہوئے۔ علامہ محمد حسن علیہ الرحمہ کے پاس درس نظامی کی تکمیل کی ان کے علاوہ دیگر نامور اکابر علماء سے استفادہ کیا ان میں دو نام قابل ذکر ہیں:مخدوم ملت استاد الاساتذہ، علامہ الزمان، بحر العلوم مخدوم حسن اللہ صدیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔استاد العلماء حضرت علامہ عطا اللہ فیروزی شاہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔ہمارےاکابرمیں تعلیم حاصل کرنےکایہ جذبہ تھاکہ عالم بن چکےتھے۔لیکن حفظ قرآن نہیں کیاتھا۔جب 1908ء میں پنجاب کا سفر کیا، ملتان شریف تشریف لے گئے جہاں سید القراء حضرت حافظ عبدالحکیم کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور چھ ماہ کے مختصر و قلیل عرصے میں قرآن پاک تجوید کے ساتھ حفظ کیا۔ اس کے بعد وطن واپس ہوئے ۔
بیعت وخلافت:1307ھ میں میں حجاز مقدس و عراق معلیٰ کا سفر کیا۔ بغداد شریف میں حضورغوث اعظم محبوب سبحانی قطب ربانی پیران پیر دستگیر سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ کے دربار عالیہ قادریہ میں کئی روز تک فیضیاب ہوتے رہے۔ خانقاہ قادریہ کے سجادہ نشین قطب زمان حضرت پیر سید مصطفی قادری گیلانی علیہ الرحمۃ کے دست اقدست پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ مرشد کریم کی صحبت میں رہ کر سلوک طے کیا اور آخر خلافت سے نوازے گئے۔پھرحضرت خواجہ عبدالرحمن فاروقی سرہندی علیہ الرحمۃسے سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت حاصل کی۔حضرت خواجہ صاحب کے وصال کے بعد آپ نے باطنی اشارے پر حضرت خواجہ ولی محمد کاتیاروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(خانقاہ ملا کا تیار ضلع حیدرآباد)کے حلقہ میں شامل ہوئے اور سلسلہ نقشبندیہ اور سہروردیہ میں تکمیل خلافت پائی۔پیر طریقت حضرت خواجہ محمد قاسم نقشبندی قدس سرہ (دربار موہڑہ شریف تحصیل کوہ مری، اسلام آباد) سے بھی نقشبندیہ سلسلہ میں خلافت ملی۔قطب زمان، فاتح قادیانیت حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ جیلانی چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(خانقاہ گولڑہ شریف ، اسلام آباد) کے حلقہ ارادت میں شامل ہو کر سلسہ چشتیہ میں خلافت حاصل کی۔چاروں سلاسل میں اجازت و خلافت حاصل تھی لیکن آپ سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت لیتے تھے اور اسی سلسلہ کو پھیلایا۔
سیرت وخصائص: پیر طریقت،رہبرِ شریعت،عالمِ ربانی، عاشق مصطفیٰﷺ،حضرت مولانا غلام محمد ملکانی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ اپنےوقت کےجیدعالمِ دین،اورمشہورصوفی بزرگ تھے۔ساری زندگی دینِ اسلام کی تبلیغ فرمائی۔علماء حق کاساتھ دیا۔آپ کی ذات کثیرالبرکات سےخطۂ سندھ میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کوبڑافروغ حاصل ہوا۔آپ کی صحبت نےعلماء وعرفاء کی ایک جماعت پیدافرمائی۔
سیروسیاحت: 1307ھ کومشائخ ِ پاک وہندکےمزارات کی زیارت کرتےہوئے عراق،شام سےزیارت کرتےہوئےحجازِ مقدس پہنچے،وہاں ایساسکون وراحت نصیب ہواکہ بقیہ زندگی نور مجسم،ہادی عالم،شفیع اعظم،شفیع المذنبینﷺ کے مزار پر انوار پر مدینہ منورہ میں گزارنے کا تہیہ کیا۔ اور تقریباً ڈیڑھ سال مدینہ منورہ میں رہ کر فیوض و برکات حاصل کرتے رہے۔ اس عرصے میں کبھی کبھار مکہ معظمہ بھی جاتے تھے۔ جہاں نامور علماءدین حضرت علامہ مفتی سید احمد زینی دحلان شافعی علیہ الرحمۃ (مؤلف الدر ر السنیۃ فی الرد علی الوھابیہ)اور مکہ معظمہ کی مشہور دینی درسگاہ "مدرسہ صولتیہ"کے بانی و شیخ الحدیث مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی صحبت اختیار کرتے۔وہاں شام کےایک عظیم عالم شیخ ابونصرعلیہ الرحمہ سےملاقات فرمائی،اوران سےبہت متأثرہوئے۔آپ فرماتے تھے:کہ میں نےشیخ ابونصرجیساعالم نہیں دیکھا،اُن کوبارہ ہزارحدیثیں یادتھیں۔
سیاسی خدمات:اس زمانےمیں جتنی سیاسی تحریکیں چلیں اس میں آپ نےبھرپورحصہ لیا۔1920ءمیں جب تحریکِ خلافت کا زورہواتوحیدرآبادسندھ میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقدہوئی اس کانفرنس میں بڑےبڑےاکابرعلماء ومشائخ نےشرکت فرمائی ۔اس کی صدارت کےلئےآپ کی ذات گرامی کومنتخب کیاگیا۔آپ نے اس کانفرنس میں جوصدارتی خطبہ ارشادفرمایاوہ آپ کی سیاسی وعلمی بصیرت کی ایک عمدہ مثال تھا۔بعدمیں کتابی شکل میں شائع بھی ہوا۔
اسی طرح اسی زمانےایک مسئلہ ترک مولات کابھی اپنےعروج پرتھا۔بہت سےدانشوروں کاخیال تھاکہ مسلمان ہندوستان سےہجرت کرکےمسلم ممالک کی طرف چلےجائیں،اوریہ علاقےانگریزاورہندوؤں کےسپردکردیں۔آپ نےاس کی زبردست مخالفت کی اورمسلمانوں کویہیں پررہنےپرمجبورکیا۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کابھی یہی نظریہ تھا۔اگرخدانخواستہ ان دانشوروں کافیصلہ سادہ عوام قبول کرکےہجرت کرکےچلےجاتے توپاکستان کاخواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیرنہ ہوتا۔
شان وشوکت: چونکہ انگریزوں کادوردورہ تھا۔اس لئے آپ اسلام کی شان وشوکت دکھانےکےکہ خاطرایک خاص اندازکےساتھ زندگی بسرکرتےتھے۔خوبصورت شاہانہ لباس اورایک شاہی تاج کی مانندایک سنہری کلاہ سرپرزیبِ تن فرماتےتھے۔جب آپ کہیں تشریف لےجاتےتو
گھوڑےاوراونٹ سواراورپیادہ لوگوں کاایک لشکرساتھ ہوتاتھا۔آگےپیچھےلوگ وردکرتےہوئےنعتیں اورنعرےلگاتےہوئے جاتےتھے۔آپ کےجلوس کودیکھ کرہندواپنی دکانیں بندکردیتےتھے،اوربہت سوں کواسلام کی دولت بھی نصیب ہوجاتی تھی۔
اس قدرعظمت وشان کےباوجودآپ میں اس قدرتواضع وانکساری تھی کہ کوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتاخواہ امیرہو یاغریب آپ اس سےبغل گیرہوکراسےاپنےسینہ بےکینہ سےلگالیاکرتےتھے۔بعض کوتووجدکی کیفیت طاری ہوجاتی،اورذکرِ قلبی جاری ہوجاتاتھا۔آپ کےحلقۂ تدریس سےبےشمارجیدعلماء کرام پیداہوئےجنہوں نےدینِ متین کی خوب خدمت فرمائی ہے۔تدریس کےساتھ ساتھ آپ نےبہت عمدہ تصانیف بھی فرمائی ہیں اکثرعربی وفارسی میں ہیں۔تقریباً ساٹھ تصنیفات ہیں۔آپ شاعرانہ ذوق بھی رکھتےتھے۔کبھی بھی سندھی میں اشعارکہاکرتےتھےجورنگِ تصوف میں ڈوبےہوئےہوتےتھے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 22/جمادی الاخری 1354ھ،مطابق 22/ستمبر1935ء بروزاتوارکوہوا۔آپ کامزارپرانواردرگاہ ملکانی شریف ضلع دادو سندھ میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ ومراجع: انوارعلمائے اہلسنت سندھ۔سندھ کےصوفیائےنقشبندج1۔