حضرت مولانا مظہر حسن رضوی بدایونی
حضرت مولانا مظہر حسن رضوی بدایونی (تذکرہ / سوانح)
مھتمم مدرسۃ قاسمیہ برکاتیہ محلہ ناگران بدایوں
ولادت
مجاہد سنیت صوفی باصفا حضرت مولانا مظہر حسن قادری رضوی ۷؍ رجب المرجب ۱۳۵۵ھ کو کمالی حویلی محلہ ناگران بدایوں شریف میں پیدا ہوئے اور والدین کریمین نے پرورش فرمائی۔
مولانا مظہر حسن شیخ انصاری برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ تادمِ تحریر یہیں پر مولانا قیام پذیر ہیں۔
خاندانی حالات
حضرت مولانا مظہر حسن کے والد ماجد ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ ایک ایسا خاندان جس میں ایک ہی وقت میں متعدد حافظ قرآن دیکھنے میں آئے۔ آپ کے جد اعلیٰ خود قرآن پاک کے بہترین حافظ تھے۔ اسی وجہ مولانا مظہر حسن کے والد ماجد عہد طفلی سے ہی صوم و صلوٰۃ کے پابند وردینی کتب کے شائق، تبلیغ فی سبیل اللہ میں مشغول و منہمک رہتے تھے۔ تقویٰ وطہارت اس حد تک تھا کہ اخیر عمر تک اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین اور منکرات سے اجتناب کی تنبیہہ فرماتے رہے۔ اور خود بھی تاوقت اجل اپنی نماز کو ترک نہیں فرمایا۔ حتیٰ کہ شدت ضعف و نقاہت کی وجہ سے چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی اشاروں سے نما ادا فرمائی۔
تسمیہ خوانی
مولانا مظہر حسن رضوی کی عمر جب چار سال چار ماہ، چار دن کی ہوئی تو والد گرامی نے بسم اللہ خوانی کے لیے اعزاز واقرباء علماء وصوفیا کو بلایا۔ ان علماء وفضلا کے جھر مٹ میں بسم اللہ خوانی کی رسم حاجی امداد اللہ بدایونی رحمۃ اللہ علیہ نے ادا کی [1]۔
تعلیم وتربیت
مولانا صوفی مظہر حسن کی تعلیم کا آغاز بسم اللہ خوانی کے بعد ہی سے ہوگیا۔ چونکہ آپ کو بچپن کے زمانے سے تعلیم کا شوق تھا۔ حاجی امداد اللہ بدایونی نے بہت محنت وشفت اور رافت سے قرآن پاک کا ناظرہ۔ مولانا بھی بہت ہی محنت اور لگن سے پڑھا۔ ختم قرآن پاک کے بعد اسکول میں داخلہ لیا۔ اور آٹھویں کلاس کے بعد والد ماجد نے دینی تعلیم کی رغبت دلائی۔
مولانا مظہر حسن کے والد ماجد نے درد نظامیہ کے علوم کی تحصیل کے لیے مدرسہ شمس العلوم گھنٹہ گھر بدایوں میں داخلہ کرادیا۔ ابتدائی کتب فارسی، عربی شمس العلوم بدایوں میں پڑھیں اور پھر مدرسہ ظہیر الاسلام بدایوں شریف میں حصول علم کےلیے چلے گئے۔ اسی درمیان کچھ ن اگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے دوسری جگہ کا تعلیمی سفر طے کیا۔ بعدہٗ جامعہ اہلسنت بدر العلوم جسپورضلع نینی تال، مدرسہ بحرل العلوم بہیڑی ضلع بریلی شریف میں اکتساب فیض کیا۔ حدیث، تفسیر وغیرہ کی اعلیٰ کتابوں کے درس کے لیے دارالعلوم منظر اسلام بریلی تشریف لائے۔
کافی عرصہ تک دارالعلوم منظر اسلام ک ے ماہرین اساتذہ سے اکتساب علوم و فنون کرتے رہے۔ ۱۳۸۲ھ میں جلسہ دستار فضیلت کے عظیم الشان مجمع عام میں دستار فراغت سے نوازے گئے۔
اساتذۂ کرام
۱۔ مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی بریلوی
۲۔ حضرت مولانا مفتی محمد ابراہیم رضوی فریدی سمستی پوری
۳۔ حضرت علامہ مولانا احسان علی رضی محدث منظر اسلام
۴۔ حضرت مولانا مفتی محمد جہانگیر خاں رضوی فتحپوری
۵۔ حضرت مولانا عبدالتواب مہاجر مصری
۶۔ حضرت مولانا محمد محبوب بدایونی
۷۔ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ بدایونی
۸۔ مولوی خلیل احمد خاں بجنوری ثم بدایونی
درس وتدریس اور خطابت
مولانا مظہر حسن قادری فراغت کے بعد درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ ۱۳۸۲ھ سے ۱۳۸۷ھ تک مسجد ایک مینارہ کراچی (پاکستان) میں امامت وخطابت اور تدریس کے فرائضانجام دیئے لگے۔ پھر پاکستان سے وطن مالوف تشریف لائے اور بعض اصحاب کے اصرار پر مدرسہ نور الاسلام شیر پور کلاں ضلع پیلی بھیت میں ۱۳۸۸ھ تک صدر مدرس کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔ بعد ہٗ مدرسہ رحمانیہ کھٹیمہ ضلع ن ینی تال میں ۱۳۹۰ھ تک فرائض درس وتدریس سر انجام دیتے رہے۔ مولانا مظہر حسن نے مذکورہ مدارس کی خدمت میں للٰہیت اور خلوص سے کام لیا ہے۔
بیعت وخلافت
۲۲؍صفر المظفر ۱۳۸۲ھ کو مولانا مظہر حسن نے تاج العلماء مولانا سید اولاد رسول محمد میاں برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت واردات کا شرف حاصل کیا۔ ۱۸؍ذیقعدہ ۱۳۹۷ھ کو حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفیٰ رضا بریلوی قدس سرہٗ نے سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ میں اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
مزید یرآں حضرت مولانا وجیہہ الدین رضوی پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ اور جانشین مفتی اعظم فقیہہ الاسلام مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری قادریہ بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ نے جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت سے سر فراز فرمایا۔
فتویٰ نویسی
حضرت مولانا مظہر حسن نے باضابطہ ۱۳۸۳ سے فتویٰن ویسی کا آغاز کیا۔ اور سب سے پہلا فتویٰ مسئلہ طلاق پر تحریر فرمایا۔ آپ کے فتاویٰ کثیر تعداد میں ہیں جو ابھی نشنۂ طباعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ یہ ذخیرہ بہت جلد قوم کے سامنے آئے تاکہ امت مسلمہ سے فائدہ اٹھاسکے۔
عقد مسنون
مولانا مظہر حسن کا عقد مسنون ۲۸؍شوال المکرم ۱۳۷۸ھ بروز چہار شنبہ مجلہ سید باڑہ بدایوں میں ایک باوقار خاندان ہوا۔۔۔۔ ماشاء اللہ آپ کے تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہے۔ جن کے اسماء درج ذیل ہیں۔
۱۔ مولانا صفدر حسن نوری فاضل الجامعۃ الاسلامیہ گنج قدیم رامپور (۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۹۰ء)
۲۔ محمد منظر حسن نوری
۳۔ محمد اظہر حسن برکاتی
۴۔ صالحہ خاتون
سادگی
مولانا مظہر حسن سادگی، تقویٰ وطہارت کے جمیل پیکر ہیں۔ بڑے عمدہ اخلاق، پاکیزہ صفات، شریف النفس انسان ہیں۔ آپ نے مسلک امام احمد رضا بریلوی کی اشاعت کے لیے اپنے کو وقف کردیا ہے۔ مولانا بلالوم ولائم کے تبلیغ دین متین میں سر گرم عمل ہیں۔
تالیفات ومرتبات
مولانا مظہر حسن تحریری دنیا میں طبع آزمائی کی اور ایک گرانقدر ذخیرہ مہیا فرمایا ہے۔آپ کی تالیفی وتربیتی کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ اظہار حق
۲۔ پیغام حق
۳۔ فتاویٰ مظہر علی مذہب حنفی
۴۔ فضائل رمضان شریف
۵۔ حضور مفتی اعظم ہند قرآن وحدیث کی روشنی میں
۶۔ تاثرات و جذبات
۷۔ شرعی فیصلہ
مفتی اعظم کے متعلق
حضرت مولانا مظہر حسن رضوی بدایونی حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کی ادا کے متعلق راقم کے نام ایک تحریر میں فرماتے ہیں:۔
‘‘مجھے حضرت کی یہ ادا بہت پسند تھی کہ بحالت جلال کسی پر غبضاک ہوتے تو اس پر بہت جلد نسیم سحر کی طرح مشفق و مہربان ہوجایا کرتے تھے۔
نمونۂ کلام
مولانا مظہر حسن کو شعر و سخن سے بھی شغف ہے۔ شاعری کے اُستاد جناب عابد حسین عابد ایونی ہیں۔ نمونہ کے طور پر چند شعر ملاحظہ ہوں؎
جھلک روئے انور کی اپنے دکھادے
نگاہوں سے ایک جام اپنی پلادے
گنہگار عاصی کا تو ہے سہارا
شفاعت سے اپنی مجھے بخشوادے
مری کشتئ غم لگا پارمولا
مدینے بلا سبز گنبد دکھادے
ہے دنیا عقبیٰ حقیقت میں اسکی
جسے اپنا دیوانہ مولابنالے
مظہرؔ کی تمنا ہے روضے کو دیکھ
مدینے میں مٹی ٹھکانے لگادے
تلامذہ وخلفاء
۱۔ مولانا محمد عثمان رضوی مظہری مظفر پوری
۲۔ مولانا عظیم الدین مظہری بھوجی پورا بریلی
۳۔ مولانا انوار کاں رضوی پیلی بھیتی
۴۔ حافظ نذراللہ پیلی بھیتی
۵۔ مولانا یعقوب حسین بدایونی
۶۔ حافظ حبیب الرحمٰن رضوی پیلی بھیتی
۷۔ حافظ حبیب الرحمٰن رضوی پیلی بھیتی
۸۔ حافظ شرف الدین رضوی مظہری خیر پور ضلع پیلی بھیت [2]