فقیہ عصر حضرت مولانا مفتی قاسم یاسینی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1305 | ربيع الآخر | 16 |
یوم وصال | 1349 | ذوالقعدہ | 18 |
فقیہ عصر حضرت مولانا مفتی قاسم یاسینی (تذکرہ / سوانح)
فقیہ عصر حضرت مولانا مفتی قاسم یاسینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
استاد الاساتذہ ، فقیہ عصر ، حضرت علامہ مفتی محمد قاسم یاسینی بن استاد العلماء حضرت علامہ محمد ہاشم یاسینی ۱۶، ربیع الاخر ۱۳۰۵ھ بروز اتوار صبح کو تولد ہوئے۔ ’’صدر اعظم ‘‘ سے ان کی تاریخ ولادت نکلتی ہے:
پرمش از میلاد او کردم سروش
’’صدر اعظم‘‘ گفت تاریخش بگوش
۱۳۰۵ھ
تعلیم و تربیت :
مفتی محمد قاسم صاحب نے اپنے والد ماجد علامہ محمد ہاشم یاسینی کے پاس درس نظامی کی تکمیل کی۔ اعلیٰ تعلیم اور فتویٰ نویسی کے لئے بر صغیر کے فقیہ اعظم ، امام اہل سنت، علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی قدس سرہ الاقدس کی خدمت عالیہ میں ہمایون شریف میں رہ کر مہارت تامہ حاصل کی۔
بیعت :
حضرت خواجہ عبدالرحمن فاروقی ؒ ( ٹکھہڑ ضلع حیدرآباد ) کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدد یہ میں بیعت ہو کر سلوک کی منازل طے کی۔
درس و تدریس :
مولوی دین محمد وفائی لکھتا ہے: فقیر نے طالب علمی کے زمانہ میں ان سے کافیۃ النجو کے اسباق پڑھے تھے ۔ مولانا محمد قاسم صاحب علم و ادب اور عربیت کے بہت بڑے عالم تھے کہ سندھ میں ان کے ہمعصر علماء میں کوئی ان کے مرتبہ کا نہیں تھا۔ فقہ کے مسائل کو حل کرنا اور فتویٰ نویسی میں زیاد ہ سے زیادہ استعد اد اور مہارت تھی۔ علامہ ہمایونی کی وفات کے بعد وہ بلوچستان اور شمالی سندھ کے عوام الناس کا مرجع تھے فتاوی لئے جاتے تھے اس کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا مشغلہ بھی جاری تھا۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ )
تصنیف وتالیف :
٭ فتاویٰ قاسمیہ جلد اول ( فارسی ) مرتبہ : مفتی محمد صاحبداد جمالی سلطان کوٹی طبع اول لاہور طبع ثانی قندھار ( افغانستان ) میں شائع ہوا۔
٭ رسالہ اہل سنت عقائد نامہ ( سندھی ) طبع ثانی جماعت اہل سنت پاکستان سکھر ۱۳۸۹ھ
٭ عمدۃ الاثار فی ذکر اخیار الکتبار ( مطبوعہ )
مشائخ درگاہ کٹبار شریف کے متعلق ہے۔
٭ دربارہ تقلید ۔
٭ الفاظ القرآن بامعنی فارسی ( نامکمل )
٭ مجموعہ اشعار ( قلمی ) وغیرہ وغیرہ
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں میں بہت سارے علماء کے نام آتے ہیں ، ان میں بعض کے اسماء درج ذیل ہیں :
٭ مولانا مفتی حافظ محمد ابراہیم یاسینی برادر اصغر
٭ مفتی اعظم پاکستان علامہ محمد صاحبداد خان ناصح جمالی سلطان کوٹ
٭ مولانا احمد صاحب قاضی مکران بلوچستان
٭ مولانا ناولی محمد صاحب قاضی مٹھڑی بلوچستان
٭ مولانا محمد حسین صاحب کھاوڑ مدیر الحنیف جیکب آباد
٭ مولانا عبدالحکیم صاحب شاہل سدایو
٭ مولانا غلام صدیق خجکی خجک سبی
٭ مولانا محمد حسن صاحب مکرانی
٭ مولانا صدر الدین صحبت پوری
٭ مولانا صاحبڈ نہ صاحب قرانی
٭ مولانا عبدالرحمن صاحب بلوچستانی ثم جیکب آبادی
٭ مولانا فضل محمد صاحب واعظ گڑھی یاسین
٭ مولانا حافظ محمد ہاشم صاحب اسھاق دیرائی
٭ مولانا محمد عابد صاحب اوستوی
٭ مولانا عبداللطیف اوستوی
٭ مولانا نصیر الدین صاحب سجادہ نشین درگاہ صدیقیہ شہداد کوٹ
٭ مخدوم مولانا شفیع محمد صدیقی پاٹ شریف
٭ مولانا قمر الدین مہیسر دگانو مھیسر
٭ مولانا حافظ محمد موسیٰ امام مسجد بخاری جیکب آباد
٭ مولانا میاں فخر الدین سجادہ نشین درگاہ کٹبار شریف
٭ صاحبزادہ عبدالغفار جان سر ہندی ٹنڈو محمد خان
٭ صاحبزادہ غلام احمد جان سر ہندی ٹنڈو محمد خان
شعر و شاعری :
مولانا صاحب طالب علمی کے زمانہ سے جب فارسی پڑھتے تھے ان دنوں سے شعر کہتے تھے، آپ کا شعر نہایت شستہ اور بر جستہ ہے۔ عارف کامل حضرت مولانا سید احمد خالد شامی ؒ جو خود بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے، مولانا کا شعر سن کر داد دیتے تھے۔ عربی زبان نہایت فصاحت و بلاغت سے بولتے تھے اور خود اہل عرب بھی ان کے معترف تھے۔ ’’قاسم ‘‘ تخلص ہے سندھی مادری زبان کے علاوہ عربی اور فارسی میں شاعری کی ہے ۔ ان کے فارسی اشعار کا ذخیرہ کافی ہے جو غزلیات، تواریخ ، قطعات ، منظومات ، مناجات اور قصائد پر مشتمل ہے۔
وصال :
حضرت مولانا مفتی محمد قاسم صاحب ۴۴ سال کی عمر میں ۱۸، ذوالقعدہ ۱۳۴۹ھ؍۱۹۲۹ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ آپ کی مزار شریف گڑھی یاسین (ضلع شکار پور سندھ ) کے قبرستان میں ایک کمرے میں زیارت گاہ خلق اللہ ہے ۔ آپ کو ’’صاحب تکبیر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے وہ اس طرح کہ جب آپ کی نماز جنازہ پڑھی جارہی تھی تو جیسے ہی امام نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی اسی وقت مفتی صاحب کے جنازہ سے بھی تکبیر کی آواز جا ری ہوئی۔
عالم کی موت اصل میں عالم کی موت ہے، آپ کے وصال پر علماء و مشائخ کو نہایت افسوس ہوا انہوں نے اپنے جذبات کو نظم میں قلمبند کیا۔ ان حضرات کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
٭ شیخ الدلائل حضرت مولانا سید عبدالفتاح رضوانی صاحب مسجد نبوی شریف ، مدینہ منورہ
٭ پیر محمد اسماعیل جان ’’روشن ‘‘ سر ہندی ( صاحب دیوان روشن فارسی ) سامار و ضلع عمر کوٹ
٭ مولانا حکیم مطیع الرحمن صاحب مطیع ضلع فیض آباد انڈیا
٭ مفتی محمد صاحبداد خان ناصح جمالی ( جامع فتاویٰ قاسمیہ
٭ مولانا محمد عظیم ’’شیدا ‘‘ سولنگی
(مصنف سیرت مصطفی سندھی ) نصیر آباد
٭ مولانا قمر الدین مہیسر صاحب مدیر مہیسر
دگانو مہیسر
٭ قاضی محمد ابراہیم صاحب
شہداد کوٹ
٭ ماسٹر جان محمد صاحب محسن
٭ مولوی نزیر حسین جتوئی
رتودیرو
ان میں سے چند قطعات درج ذیل ہیں :
مفتی محمد صاحبداد خان ’’ناصح ‘‘ جمالی :
آن امام محمد قاسم
کہ بحسن خصال بود فرید
کس نظیرش ندید در عالم
خلق حق را بخلق نیک خرید
گفت ’’ناصح‘‘ سنش بزیب جلوس
’’طائر روح او بعرش پرید‘‘
۱۳۴۹ھ
قاضی محمد ابراہیم کارڑائی شہداد کوٹ:
آن فقید المثیل و حبر امین
مفتی عصر فاضل یاسین
بے سر وقف گفتش تاریخ
’’فخر احناف زیب زمرہٗ دین‘‘
۱۳۴۹ھ
پیر محمد اسماعیل روشن سر ہندی :
محمد قاسم آں علامہ دہر
نکو رو و نکو خو و نکو نام
ہزاراں طالبان نردش رسانید
نصاب علم حقانی بانجام
زوصلش گفت ’’روشن‘‘ باصد آہ !
بگو کل گشت ’’شمع اہل اسلام‘‘
۱۳۴۹ھ
حکیم مطیع الرحمن ’’مطیع‘‘:
جو محمد قاسم اہل فیض تھے
عالم بے مثل یکتائے جہاں
دے کے داغ غم مہ ذیقعد میں
چل بسے وہ جانب باغ جناں
سال رحلت تم سناوٗ اے ’’مطیع‘‘
’’واصل رب ہو گیا فخر زماں‘‘
( ماخوذ :۔ تذکرہ مشاہیر سندھ ۔ مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء ۔ روشن صبح سندھی ۔ مختصر سوانح حیات سندھی طبع قدیم مرتبہ : مولانا محمد حسین کھاوڑ ایڈیٹر الحنیف)
قطعہ تاریخ وصال
ضیائی قدر مولانا ضیائی
کہ بودش با محمد خوش دعائی
سر سرمایہ علم و ادب بود
معلی یایہ علم و ادب بود
منا جاتی اجل آمد برمن
بجنت رفست روح جلد ترمن
زمر من جھانے شد یراز غم
کہ موت عالم آمد موت عالم
بخلق احسن و فرخندہ روئی
ازیش عالم بخود بردہ نکوئی
چو بانگ ارجعی درگوش من رفت
زفرط شادمانی ھوش من رفت
رواں جانم بہ جنت شد شتابی
بہ نعمتھائی حق شد بھریابی
بحمد اللہ کہ بودش رحم برمن
کہ اعلیٰ یایہ شد کرم برمن
کہ بود بسیت ھشتم ماہ صفر
ختم شد زندگی من باالمظفر
زصبح روز خمس جاں ازیں رفت
’’سن او سوئے فردوس بریں رفت‘‘
۱۳۹۷ھ
’’ضیائی‘‘ درحتش داعی است ھر دم
کہ در جنست بودبس شاد و خرم
مولانا مفتی محمد ابراہیم ’’ناظم ‘‘یاسینی
حضرت مولانا حافظ مفتی محمد ابراہیم بن حضرت مولانامفتی محمد ہاشم گڑھی یاسین ( ضلع شکار پور سندھ ) میں ۱۳۰۷ھ بمطابق ۱۸۹۰ء کو تولد ہوئے۔ آپ حضرت مولانا مفتی محمد قاسم یاسینی ( صاحب فتاویٰ قاسمیہ ) کے چھوٹے بھائی تھے ۔
تعلیم و تربیت:
مفتی محمد ابراہیم نے ناظرہ قرآن مجید اور فارسی کتب کا درس اپنے والد ماجد سے لیا۔ اس کے بعد والد ماجد کے شاگرد قاری حافظ نور محمد کے یہاں قرآن مجید حفظ کیا۔ والد ماجد کے انتقال کے بعد اسکول کی تعلیم مکمل کر کے عربی علوم و فنون کی تعلیم اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد قاسم یاسینی سے حاصل کی اور مدرسہ ہاشمیہ قاسمیہ گڑھی یاسین سے فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت:
آپ سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی کے والد حضرت خواجہ عبدالرحمن سر ہندی ؒ ( درگاہ ٹنڈو سائینداد) سے بیعت تھے اور سلسلہ قادریہ میں اویسی تھے۔
درس و تدریس :
آپ تعلیم و تدریس کو خدمت دین بلکہ عبادت سمجھتے تھے۔ رحلت سے تقریبا ایک برس قبل ایک بار بیمار ہوئے بخار کی شدت سے جسم تپ رہا تھا۔ غالبا کمزوری کی وجہ سے لرزہ بھی طاری تھا۔ تکیوں کے سہارے بھی چین کے ساتھ بیٹھ یا لیٹ نہیں سکتے تھے ۔ اس حال میں بھی درس دے رہے تھے۔ اس وقت آپ کے ایک شاگرد حافظ خیر محمد اوحدی بھی موجود تھے۔ انہوں نے غرض کیا کہ ایسی کیفیت میں درس دینا ضروری نہیں ہے۔ آپ آرام کیجئے ۔ طلبہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ ’’یہ امید لے کر میرے پاس آتے ہیں میں ان کو ناامید کیسے کروں ‘‘حدیث شریف کا درس دیتے ہوئے عقیدت و احترام کے تمام لوازمات کو ملحوظ رکھتے تھے اور درس دیتے ہوئے اکثر اوقات روتے رہتے ۔
تصنیف و تالیف:
درس و تدریس اور فتاویٰ نویسی سے آپ کو اگر چہ کم فرصت ملی تاہم تیس ( ۳۰) کے قریب آپ کی اہم تصانیف موجود ہیں جو کہ مختلف زبانوں میں ہیں ۔ ان میں سے بعض مطبوعہ اور اکثر غیر مطبوعہ ہیں ۔
٭ ترجمہ مشکوٰۃ ربع اول ( سندھی )
٭ ازالۃ الارتیاب عن الاحکام الصلوۃ الی القبور و القاب
٭ القول الصواب فی تحقیق قبور قبات
٭ البینات الواضحات فی حکم اعطاء الصدقات الی الشرفاء والسادات( سید وں کو زکوٰۃ دینے کے جواز میں )
٭ تمیز الحلال من الحرام الدفع اوھام الجھال والعوام ۔ ( مطبوعہ رفاہ عام اسٹیسم پریس لاہور ۱۳۴۰ھ؍ ۱۹۲۲ء )
٭ ھدایۃ العباد فیما یتعلق بالضاد ( سندھی )
٭ مامریدان (منظوم فارسی )
٭ دیوان ناظم ( فارسی )
٭ مجموعہ تاریخ
٭ قوت ایمان ( سندھی )
٭ مناسک حج ( سندھی )
٭ لباس البنی ﷺسندھی ( کتابچہ )
٭ تعلیم المسلمین ( سندھی )
٭ فتاویٰ ناظم ( قلمی ، غیر مرتب)
٭ سیف اللہ علیٰ من المنکر نداء بیارسول اللہ
٭ نجات المومنین فی حکم عرس النبی الامین
٭ کشف الغمہ فی امداد النبی الامہ
٭ کشف القناع عن حکم السماع
٭ النظم المقبول فی آداب الرسول ( منظوم فارسی )
٭ جمع القرآن فی زمان سید الانس والجان
٭ القول المبین فی عدم رفع الصوت الامین
٭ توضیح مااحل اللہ مما اھل بہ لغیر اللہ
٭ تفسیر حنفی پارہ الم وعم ( سندھی )
٭ الحجۃ الکافیہ فی جواز الجماعۃ الثانیہ
٭ نھج الانصاف فی حکم مونو گراف
٭ فصل الخطاب فی حکم الغراب
٭ نوری نبی ﷺ
٭ فتاویٰ ہمایونی کا سندھی ترجمہ مع خلاصہ
٭ میلاد نامہ ( منظوم سندھی ) صفحات ۲۱
٭ معراج نامہ ( منظوم سندھی ) صفحات ۱۰( دونوں کتابچہ گڑھی یاسین سے شائع ہوئی ہیں )
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کی فہرست بڑی طویل ہے جن میں سے کئی ایک نے بڑی ناموری حاصل کی اور اپنے فضل و کمال کی وجہ سے بلند ترین مقام پر فائز ہوئے۔
٭ مولانا مفتی عبدالباقی ہمایونی سجادہ نشین درگاہ ہمایون شریف
٭ مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد صاحبداد خان سلطان کوٹی ( سابق شیخ الحدیث جامعہ راشدیہ پیر جو گوٹھ )
٭ نامور ادیب و شاعر مولانا حافظ خیر محمد اوحدی شکارپور
٭ مولانا تاج محمد کٹبار شریف ۔ مولانا عبدالعزیز اوڈھو صدر مدرس مدرسہ مجددیہ ، مولانا محمد حسین کھاوڑ، ایڈیٹر الحنیف جیکب آباد ( تذکرہ شعراء سکھر ص ۲۶۸)
عہدہٗ قضاء :
آپ ۱۳۶۵ھ میں ریاست قلات کے عہدہ قضاء پر بھی فائز ہوئے اور کافی عرصہ تک افتاء کے ساتھ قضاء کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
سفر حرمین شریفین:
آپ ۱۳۵۵ھ میں حرمین شریفین کی زیارت سے سعادت افروز ہوئے۔ حج کے بعد بلاد اسلامیہ کی سیاحت کی۔
عراق میں قیام :
عراق میں کافی عرصہ قیام کیا۔ بغداد شریف کے ایک عالم و ادیب شیخ صالح کرد کے مہمان تھے اور انہی کی دعوت اور مسلسل اصرار پر عراق تشریف لے گئے تھے۔ شیخ صالح ، شاہ عراق الفیصل اول کے مصاحب تھے۔ مولانا محمد ابراہیم سے ان کی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی ۔ پھر دونوں کے درمیان ایک عرصہ تک خط و کتابت ہوتی رہی ۔ شیخ صالح نے مولانا کے خطوط اپنے حلقہ احباب کے عراقی علماء اور ادیبوں کو دکھائے۔ انہوں نے خطوط دیکھ کر یہ بات ماننے سے انکار کر دیاکہ یہ کسی عجمی نے لکھے ہیں کہ عجمی اتنی فصاحت و بلاغت اور بے تکلفی کے ساتھ عربی نہیں لکھ سکتا اور نہ ہی اس کی تحریر کردہ عربی میں اتنی گیرائی و گہرائی اور ادبیت ہو سکتی ہے یہ ضرور کوئی اہل عرب ہیں جو عرب سے نقل مکانی کر کے سندھ میں جاکر سکونت پذیر ہو گئے ہیں ۔ اسی وجہ سے شیخ صالح اصرار کرتے رہتے تھے کہ آپ ایک بار عراق ضرور تشریف لائیں تا کہ یہاں کے اہل علم و ادب کے ساتھ آپ کی ملاقات کرائی جائے اور میری بات کی تصدیق ہو سکے ۔ علمائے عراق کے ساتھ مولانامحمد ابراہیم کی بڑی پر لطف اور یاد گار صحبتیں ہوئیں ۔ قیام عراق کے دوران نجف اشرف، کربلا معلی، اور دیگر مزارات مقدسہ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ ، شیخ معروف کرخی ، شیخ سری سقطی، شیخ جنید بغدادی ، شیخ شبلی اور حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مزارات کی زیارت سے شرف اندوز ہوئے۔
شخصیت:
آپ نہ صرف مدرس ، مفتی اورقاضی تھے بلکہ ادیب ، شاعر، محقق مصنف اور حاضر جواب مناظر تھے۔ عربی و فارسی زبان اور شعر و ادب پر اس قدر دسترس رکھتے تھے جس قدر اپنی مادری زبان سندھی پر اور اس کے شعر و ادب پر رکھتے تھے۔ زندہ دلی ، شگفتگی ، سخن فہمی اور نکتہ رسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ مزاج میں بے انتہا خود داری اور خود اعتمادی تھی ۔ کتب متداولہ کا عمر بھر درس دیا ان کی امتیاز ی خصوصیت یہ تھی کہ فقہ اور اصول فقہ میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے۔ ان کے بے شمار فتاویٰ موجود ہیں جو انہوں نے وقتا فوقتا ہر مسئلہ پر تحریر کئے ہیں ۔ آپ کا ہر فتویٰ مدلل اور مستند حوالہ جات سے مزین ہوتا تھا۔ آپ اہل سنت و جماعت کے قابل فخر سر مایہ تھے ۔ اہل سنت و جماعت سندھ کی تنظیم ’’جمعیت الاحناف سندھ ‘‘ جو کہ سندھ کے نامور علماء نے فرقہ جدیدہ وہابیت دیوبند یت کے اصل کردار کر واضح کرنے اور عوام الناس کو ان کے عقائد باطلہ سے بچانے کے لئے بناتی تھی آپ اس تنظیم کے ناظم تھے اسی لئے اپنا پہلا تخلص ’’حافظ ‘‘ترک کر کے ’’ناظم ‘‘ تخلص اختیار کیا۔
مولانا محمد ابراہیم انتہائی نیکو کار، متقی اور عبادت گذار تھے۔ سنت نبوی کے تابع اور حضور اکرم ﷺ کے عاشق زار، گھر کے قریب مسجد تھی نصف شب کے بعد مسجد میں جاتے تہجد ادا کر کے پہلے ذکر و فکر میں مشغول ہوتے اور پھر کھڑ ے ہو کر ہاتھ باندھ کر قصیدہ بردہ شریف پڑھنے اور جب اس شعر پر پہنچتے تو بار بار اس کی تکرار کرتے کہ:
ھو الحبیب الذی ترجیٰ شفاعتہ
لکل ھول من الاھوال مقتحم
اور زار وقطار روتے ہوئے اور اسی کیفیت میں پڑھتے اور قصیدہ بردہ شریف کا ختم فرماتے ۔
سراج العاشقین حضرت خواجہ غلام فرید چشتی ؒ ( کوٹ مٹھن شریف ) کے خلیفہ ، عاشق رسول ، بلبل چمن رسالت مولانا محمد یار گڑھی شریف والے مولانا مفتی محمد ابراہیم صاحب کے اوصاف بیان کرتے ہیں :
خلیل وقت ابراہیم نامے
امامے حجت ہر خاص دعائے
اولاد:
آپ کو اکلوتا بیٹا حاجی محمد احسان سومرو پیدا ہوا، ان کا آپ کی زندگی میں ۱۹۶۰ء کو انتقال ہوا۔
وصال:
مفتی محمد ابراہیم نے ۷، شعبان المعظم ۱۳۸۴ھ بمطابق ۱۲، دسمبر ۱۹۶۴ء کو ۷۷ سال کی عمر میں ندائے ارجعی کو لبیک کہہ کر واصل بحق ہوئے ۔ آپ کا مزار شریف گڑھی یسین میں زائرین کیلئے حصول برکت کا ذریعہ ہے ۔آپ نے اپنے وصال سے قبل خود اپنا قطعہ تاریخ وصال کہاجو کہ درج ذیل ہے:( مفتی محمد قاسم یاسینی اویسی کے ارسال کردہ مواد سے ماخوذ ہے)
ہرچہ آن دوست نمودہ است ہمہ دان کہ نکواست
باشد پسندیدہ دل آنچہ پسندیدہ اوست
خود بگفتا بدم آخر باطبع پاک
حمد اللہ کہ نمردیم رسیدیم بدوست
۱۲۷۷۔۱۰۷۔ ۱۳۸۴ھ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )