فاضل اجل حضرت مولانا محمد احسن پشاوری المعروف حافظ دراز قدس سرہ
فاضل اجل حضرت مولانا محمد احسن پشاوری المعروف حافظ دراز قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
فاضل یگانہ استاذ العلماء حضرت مولانا محمد احسن ابن مولانا حافظ محمد صدیق ابن محمد اشرف،قدست اسراہم،۱۲۱۲ھ؍۸۔۱۸۸۷ء میں خوشاب(پنجاب) میں پیداہوئے۔آپ کا خاندان علم و فضل میںبلند مقام کا حامل تھا[1]اکثر علوم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کئے جو برے علم و فضل کی مالک تھیں[2] حافظ دراز کے نام سے شہرت کی وجہ یہ تھی کہ آپ نہ صرف علوم عقلیہ و نقلیہ میں بلند مرتبہ رکھتے تھے بلکہ جسمانی طور پر بھی بلند قامت اور سروقد تھے چنانچہ ایک دفعہ جو تا بنوانے کی غرض سے موضع چمکنی تشریف لے گئے،موچی مکان کی چھت پر بیٹھا جوتے بنارہا تھا،آپ نے سر اونچا کر کے پوچھا کہ میرے پائوں کے سائز کا جوتا مل جائیگا؟ اس نے کہا مولانا! گھوڑے سے اتر کر اوپر آجائیں۔آپ نے فرمایا گھوڑا کہاں میں تو اپنے پائوں پر کھڑا ہوں ! موچی نے آج تک اتنا طویل آدمی نہیں دیکھا تھا،یہ سن کر وہ گھبرایا ہوا اٹھ کر بھاگ گیا[3]
مولان فقیر محمد جہلمی لکھتے ہیں:۔
’’فقہ،تفسیر،حدیث،اصول میں یگانۂ روز گار اور جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور خاندان علم و فضل سے تھے[4]جلد ہی آپ کی جلالت علمی کا شہرہ دور دار تک پہنچا۔پشاور،علاقہ آزاد،کابل،قندھار، غزنی،ہرات،سمرقنداور بخار کے تشنگان علوم دینیہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور کامیاب ہو کر اپنے علاقوں میں خدمت دین میں مصروف ہو جاتے۔
جب مولوی اسمٰعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی اپنے لائو لشکر کے ساتھ پشاو پہنچے تووہاں کے حنفی علماء نے ان کے عقئد سے سخت اختلاف کیا،مولوی اسمٰعیل دہلوی نے فضا ہموار کرنے کی خاطر پشاور کے علماء کے نام خطوط لکھے،سب سے پہلے جس عالم کو مخاطب کیا وہ مولانا حافظ دراز تھے۔اس سے آپ کی رفعت جلالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے نیزنیہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ اظہار حق کے سلسلے میں کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
مولانا حافظ دراز رحمہ اللہ تعالیٰ پر آشوب دور میں علوم دینیہ کی قندیل روشن رکھی اور کسی ظالم و جابر کے سامنے جھکنا گوارا نہ کیا،آپ نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں پشاور کے حاکم جرنیل ابو طویلہ اطالوی کے مظالم پر زبر دست تنقید کی اور اسے عدل و انصاف پر علم پیرا ہونے کی تلقین کی،اس نے باز پرس کے لئے آپ کو گور کھٹڑی میں طلب کیا،کسی طرح یہ اطلاع شہر میں پھیل گئی،لوگ جانتے تھے کہ ابو طویلہ بڑا ظالم ہے، بس پھر کیا تھا پورے شہر میں ہیجان پیدا ہوگیا،علماء و مشائخ،مساجد اور خانقاہوں سے نکل آئے،صورت حال دیکھ کر ابو طویلہ نے آپ کو عزت و تکریم سے رخصت کردیا۔
امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کی اولاد میں سے شاہ غلام محمد معصومی المعروف حضرت جی پشاوری رحمہ اللہ تعالیٰ سرہند تشریف لا کر پشاور میں مقیم ہو چکے تھے،ان کے ہاں ہفتے میں دودن مجلس وعظ و نصیحت منعقد ہوتی تھی،ایک دن مولانا حافظ دراز رحمہ اللہ تعالیٰ کے لئے مختص ہوتا تھا۔آپ مسلک اہل سنت و جماعت مدلل طور پر بیان فرماتے تھے، آپ کی گفتگو اتنی اثر انگیز ہوتی تھی کہ سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی،محض آپ کا بیان سننے کے لئے لوگ دور دراز سے حاضر ہوتے تھے۔
حضرت مولانا حافظ دراز رحمہ اللہ تعالیٰ کے تلامذہ ویسے تو ہر خطے اور ہر شہر میں موجود تھے اور صوبۂ سرحد کے اکثر و بیشتر علماء آپ کے رشتہ تلمذ میں منسلک تھے، لیکن آپ کے تین شاگرد بہت مشہو ہوئے۔
۱۔ شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی قدس سرہ۔
۲۔ قدوۃ الکاملین حضرت مولانانبی للّٰہی قدس سرہ ۔
۳۔ استاذ المحدثین مولانا میاں نصیر احمد المعروف میاں صاحب قصہ خوانی قدس سرہ۔
مولانا حافظ دراز قدس سرہ نے درج ذیل عظیمالشان تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑا:
۱۔ منح الباری شرح صحیح البخاری(فارسی) شروح حدیث میںیہ شرح اپنی مثال آپ ہے،اسماء رجال کی تحقیق،حل لغات،مذہب حنفی کا احادیث سے اثبات اور مسلک اہل سنت و جماعت پر استد لال ایسے امور ہیںجو قابل دید ہیں،اس شرح کا قلمی نسخہ پشاور یونیورسٹی میں محفوظ ہے،پہلا پارہ چھپ چکا ہے۔
۲۔ حاشیۂ قاضی مبارک،اپنی اہمیت کی بناپر متعدد مطابع کی طرف سے قاضی مبارک کے ساتھ چھپ چکا ہے۔
۳۔ حواشی بر تتمہ اخوند یوسف۔
۴۔ تفسیر سورئہ یوسف۔
۵۔ تفسیر از سورئہ والضحیٰ تا آخر قرآن۔
۶۔ معراج نامہ۔
۷۔ وفات نامہ
۸۔ شاہ بخار کے سوالات کے جوابات، یہ مجموعہ اسلامیہ کالج کی لائبریری میں محفوظ ہے۔
مولانا محمد احسن المعروف حافظ از پشاوری قدس سرہ کا وصال ۱۲۶۳ھ؍ ۱۸۴۷ء میں پشاور میںہوا،اس وقت آپ کی عمر شریف ۶۱ سال تھی[5]
[1] امیر شاہ قادری ،مولانا : تذکرہ علماء و مشائخ سرحد(مطبوعہ پبلشنگ ہائوس پشاور ۱۳۸۳ھ)ج،ص ۲۲۔
[2] رحمن علی مولانا: تذکرہ علمائے ہند( اردو ترجمہ،مطبوعہ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی، کراچی ۱۹۶۱ئ)ص۱۸۵
[3] امیر شاہ قادری،مولانا : تذکرہعلماء و مشائخ سرحد ،ج ۱،ص ۱۲۲
[4] فقیر محمد جہلمی مولانا: حدائق الخفیہ(مطبوعہ مطبع نول کشور ،لکھنؤ ۱۸۸۶ئ) ص۴۷۵۔
[5] امیر شاہ قادری ، مولانا پیر: تذکرہ علماء و مشائخ سرحد، ج ۱ ، ص ۱۲۳، ۱۲۷ھ
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)