حضرت مولانا محمد حسین جان ابن حضرت خواجہ عبد الرحمن (م ۱۳۱۵ھ) ابن حضرت خواجہ عبد القیوم (قدست اسراہم) ۱۲۸۸ھ؍۲۔۱۸۷۱ء میں بمقام ارغستان قندھار میں پیدا ہوئے۔ہوئے آپ کا سلسلۂ نسب حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ تک پہنچتا ہے۔آپ ک ے بڑے بھائی حضرت خواجہ محمد حسین جان سرہندی نے تمام علوم اپنے والد ماجد اور فضلائے عصر سے حاصل کئے،پانچ سال تک مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں تعلیم حاصل کی،شب وروزمطالعہ میں منہک رہتے،تمام علوم م یں یدطولیٰ رکھتے تھے،خاص طور پر علم ادب اور تاریخ پا کامل عبور رکھتے تھے جوانی ہی شعرو سخن کا آغاز کیا اور ھالات زمانہ کے دگر گوںہونے کے با وجود فارسی شاعری کو بام عروج تک پہنچایا،آپ کوفی البدیہ شعر کہتے میں کمال حاصل تھا،طریقت میں حضرت خواجہ عبد الرحیم قدس سرہ (م ۱۳۱۵ھ) سے بیعت تھے۔
حضرت سرہندی تقریباً تمام اصناف سخن میںماہرانہ انداز میں اظہار خیال فرماتے تھے۔ آپ کے کلام میں قطعات،رباعیات اور مثنویات تمام چیزیں ملتی ہیں۔ فارسی کے علاوہ عربی اور پشتو میں بھی طبع کے طور پر دلی جذبات کو اشعار کے قالب م یں ڈھال دیا کرتے تھے۔آپ نے شعرو شاعری کو اپنا پیشاہ اور مسلک نہیں بنایا بلکہ بعض اوقات تفنن طبع کے طور پو دلی جذبات کو اشعار کے قالب میں ڈھال دیا کرتے تھے۔ آپ نے فارسی زبان کے نامور شعراء نظامی،عمرخیام،سعدی،رومی،خسرو،حافظ، جامی،عرفی،کلیم اور بیدل کی زمینوں میں بڑی جانداز غزلیں کہی ہیں،حافظ شیرازی کی ایک غزل کا مطلع ہے ؎
تعالیٰ اللہ چہ دولت دارم امشب
کہ آمد ناگہاں دلدار م امشب
اس پر حضرت سرہندی کہتے ہیں ؎
تعالیٰ اللہ چہ شیریں کا رم امشب
زدصل آں پری بیدارم امشب
مہم چوں تاب مہراز در آمد
زعکش سر بسر انوار امشب
فقلت الیک اشکو من فراقک
بگفتا شکر کن غمخوارم امشب
خدا وندا کہ سرہندی چو حافظ
زجام بے خودی سر شارم امشب
کلیم ہمدانی کے تتبع میں ایک غزل لکھی ہے جس کامقطع ہے ؎
سر ہندی ازاں بست لب از شربت و صلش
کزا بروئے اودید بلال رمضان را
بلال رمضان دیکھ کر روزہ رکھنے کو استعارے کے انداز میں کس کوبی سے نبھایا ہے۔
افغانستان کی زبوں حالی کی وجہ سے حجاز مقدس چلے گئے،وہاں پانچ سال قیام کے بعد واپس آکر موضع ٹکھر صوبہ سندھ میں طویل عرسہ تک قیام پزیر رہے۔ آخر میں سمارو شریف منتقل ہو گئے اور یہیں ماہ صفر ۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۸ء میں اسی ۸۰سال کی عمر میں وصال فرمایا۔آخر وقت میں جب حالت انتہائی نازک ہو گئی تھی،آپ کو اطلاع دی گئی کہ واچی کے ایک ماہر طبیب کو بلا یا گیاہے،انشاء اللہ العزیز کل صبح تک پہنچ جائے گا،آپ نے حدیث پاک کا مطالعہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’صبح تک حکیم ضرورت ہی نہ رہے گی۔‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا،رات کے تین بجے کے قریب کلمۂ پڑھتے مالک حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ایک صاحبزادی کے علاوہ باقی اولاد آپ کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی تھی۔
حضرت سرہندی کی کلیات خیا بان سرہندی کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ آپ کے کلام کا مطالعہ کے بعد و ثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ برطانوی عہد کے سندھی فارسی گوشعراء کی صف اول میں شامل تھے[1]
[1] یہ تمام حالات مکرمی پروفیسر محمد مسعوذ احمد مدظلہ کے مضمون’’آقائے سرہندی‘‘ ماہنامہ قومی زبان کراچی،جنوری ۱۹۶۸ء ص: ۴۵۔۶۵ سے ماخوذ ہیں۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)