مولانا محمد قاسم جبلپوری
مولانا محمد قاسم جبلپوری (تذکرہ / سوانح)
آستانہ رضویہ مصطفویہ برھانیہ جبلپور
ولادت
حضرت مولانا محمد قاسم عبدالواحد شہید القادری تاج محمد قادری بن حاجی عبدالکریم چشتی ۱۴؍محرم الحرام ۱۳۶۲ھ؍۱۹؍جنوری ۱۹۴۳ء شب دو شنبہ بوقت ۱۲ بجے قصبہ ممبر کھا ضلع الیہ آباد میں پیدا ہوئے۔
خاندانی حالات
مولانا محمد قاسم رضوی کے جد امجد حاجی عبدالکریم چشتی ۱۸۵۷ء میں بمعر ۱۹یا ۲۰ سال جبل پور تشریف لائے اور ایک سو اٹھارہ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ جامع مسجد منٹری جبل پور کے بڑے قبرستان میں دفن ہوئے۔
مولانا محمد قاسم کے والد تاج محمد قادری نے ۱۳؍صفر المظفر ۱۳۹۹ھ شب یکشنبہ فجر بعمر ۸۵ سال انتقال فرمایا۔ یہ خاندان آج بھی مشہور اور وقار وعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو حضرت شیر علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد سے ہے۔
تعلیم وتربیت
مولانامحمد قاسم رضوی کی تعلیم کا آغاز جمادی الاخریٰ ۱۳۸۱ھ؍۱۹۶۰ء کو جامعہ عربیہ ناگپور سے ہوا۔ ۱۹۶۵ء میں مولانا مشتاق احمد رضوی نظامی الٰہ آبادی کے رقعہ کے توسط سے شوال المکرم ۱۳۸۵ھ کو جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا بعدہٗ ۱۹۶۷ء میں دارالعلوم مظہر اسلام بریلی میں داخلہ لے کر علوم اسلامیہ کے تحصیل کی تکمیل کی۔
اساتذۂ کرام
۱۔ حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی
۲۔ حافظ ملت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی ثم مبارکپوری
۳۔ حضرت مولانا حافظ عبدالرؤف بلیاوی سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارکپور
۴۔ بقیۃ السلف مولانا الحاج محمد مبین الدین رضوی امروہوی شیخ التفسیر جامعہ نعیمیہ مراد آباد
۵۔ سید الاتقیا علامہ تحسین رضا رضوی بریلوی محدث جامعہ نوریہ رضویہ بریلی
۶۔ حضرت مولانا سید حامد اشرف رضوی اشرفی کچھوچھوی
۷۔ حضرت مولانا عبدالمنان اعظمی شیخ الحدیچ شمس العلوم گھوسی اعظم گڈھ
۸۔ حضرت مولانا مظفر حسین ظفر ادیبی مبارکپوری
۹۔ حضرت مولانا مفتی عبدالرشید فتحپوری بانی جامعہ عربیہ ناگپور
۱۰۔ حضرت مفتی غلام محمد خاں رضوی شیخ الحدیث امعہ عربیہ ناگپور
۱۱۔ حضرت مولانا مجیب اشرف رضوی جامعہ عربیہ ناگپور
خدمات دینیہ اور تصانیف
مولانا قاسم تاریخی مادے نکالنے میں بہت ماہر ہیں۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کی تاریخ ولادت و وصال کو ایک طویل عربی عبارت میں بند کیا۔ جس کے ہر ایک جملے سے امام احمد رضا بریلوی کا سنہ ولادت اور سنہ وفات اخذ ہوتا ہے۔ مولانا محمد قاسم نے اپنا مستقل مستقر جبل پور کو بنایا اور یہاں رہ کر وعظ وتبلیغ پند ونصاح کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ فتویٰ نویسی کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی تصانیف میں سے دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں:
۱۔ الہامات قادریہ رضوی قاسمیہ
۲۔ جامع حقیقت
بیعت وخلافت
مولانا محمد قاسم رضوی جبلپوری کو بیعت حضور مفتی اعطم سے حاصل ہے۔ اور مفتی اعظم مولانا شاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی نے ۱۹۶۸ء کو زبانی اور ۱۹۶۹ء کو تحریری اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ نیز برہان ملت مفتی عبدالباقی برہان الحق رضوی جبلپوری نے ۱۹۷۴ء میں اجازت مرحمت فرمائی۔
نمونۂ کلام
مولانا محمد قاسم فن شعر گوئی سے بھی آشنا ہیں۔ تخلص شہید فرماتے ہیں۔ نمونہ کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ذیل کے اشعار مفتی اعظم قدس سرہٗ کی شان میں کہے گئے ہیں۔
سیدی مفتئ اعظم متقدائے اولیاء
تاجدار اہلسنت رہنمائے اولیاء
ناقصوں کے پیر کامل، کاملوں کے رہنما
ہے شہید بے نوا بھی خاکپائے اولیاء
ایک اور منقبت کے اشعار ملاحظہ ہو؎
عقدہ کشا ہمارے یہ مصطفیٰ رضا ہیں
محبوب حق کے پیارے یہ مصطفیٰ رضا ہیں
احمد رضا کے بیٹے وقف رضائے احمد
نوری میاں کے پیارے یہ مصطفیٰ رضا ہیں
نائب ہیں یہ نبی کے وارث ہیں غوثیت کے
ہر رُخ سے ہیں یہ نیارے مصطفیٰ رضا ہیں
تسلیم ہے ولایت ان کی ہر اک ولی کو
ہاں پیشوا ہمارے یہ مصطفیٰ رضا ہیں
تقدیر کے سکندر ہم ہیں شہید نوری
شکر خدا ہمارے یہ مصطفیٰ رضا ہیں [1]
[1] ۔ محمد قاسم رضوی، مولانا: الہامات قادریہ رضویہ ص ۱۳۹، ۱۴۰
(نوٹ) حوالہ الہامات قادریہ رضویہ کے علاوہ جمیع حالات وکوائف حضرت مولانا محمد قاسم رضوی جبلپوری کے مکتوب سے ماخوذ ہیں، بنام راقم محررہ شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ؍ ۱۹۹۰ء ۱۲،رضوی غفرلہٗ